جی ایٹ: تیونس اور مصر سمیت جہوری تحریکوں والے ممالک کے لیے 20 بلین ڈالرز
27 مئی 2011لیبیا کے خلاف جاری نیٹو آپریشن اور اس حوالے سے اب تک ہونے والی پیشرفت جی ایٹ سربراہی کانفرنس کے دوسرے اور آخری روز خاص طور پر زیر غور رہی۔ امریکی صدر باراک اوباما نے نیٹو کی جانب سے لیبیا کے خلاف جاری کارروائی میں پیشرفت کا ذکر کرتے ہوئے کہا: ’’ہم اس بات پر متفق ہیں کہ ہم نے لیبیا کے خلاف جاری کارروائی میں کامیابیاں حاصل کی ہیں، تاہم اقوام متحدہ کے مینڈیٹ کے مطابق شہریوں کے تحفظ کو اس وقت تک یقینی نہیں بنایا جاسکتا ہےجب تک قذافی اپنی افواج کو شہریوں کے خلاف سخت اقدمات کے احکامات دینے کے لیے لیبیا میں موجود ہیں۔ ہم اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے متحد ہیں۔‘‘
کانفرنس کے دوران روسی صدر دیمتری میدویدیف نے پیشکش کی کہ روس اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے مغربی طاقتوں اور معمر قذافی کے درمیان مذاکرات کے لیے ثالث کا کردار ادا کرنے پر تیار ہے۔ تاہم فرانس کے صدر نکولا سارکوزی نے کہا کہ اب لیبیا کے رہنما معمر قذافی سے مصالحت ناممکن ہے: ’’ مسٹر قذافی کو ہرحال میں جانا ہوگا۔ ایک جمہوری مستقبل لیبیا کے عوام کا حق ہے۔‘‘
کانفرنس کے اختتام پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے فرانسیسی صدر کا کہنا تھا کہ وہ لیبیا میں باغیوں کے گڑھ بن غازی کا دورہ کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ سارکوزی نے امید ظاہر کی کہ برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون بھی اس دورے میں ان کے ساتھ ہوں گے۔
جی ایٹ کانفرنس کے اختتامی اعلان کے مطابق عوامی تحریکوں کے ذریعے لمبے عرصے سے اقتدار پر قابض حکمرانوں کو ہٹانے والے ممالک تیونس اور مصرسمیت عرب اور شمالی افریقی ملکوں میں جاری انقلابی تحریکوں کے لیے 20 بلین ڈالرز مختص کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے کانفرنس کے اختتام کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اب اہم بات یہ کہ یہ رقم جلد از جلد وہاں کے لوگوں تک پہنچے۔
کانفرنس کے پہلے روز جرمن چانسلر میرکل نے عرب دُنیا کی انقلابی تحریکوں کے لیے مزید ٹھوس امداد کا یقین دلایا۔ اپنے پالیسی بیان میں میرکل نے کہا کہ جرمنی ان ملکوں کے معاشی استحکام میں مدد دے گا تاکہ سیاسی تبدیلی کا عمل خطرے سے دوچار نہ ہو۔ جرمنی کی طرف سے مصر کو دیے گئے تین سو ملین یورو قرضوں کو ری شیڈول کرنے کی بھی پیشکش کی گئی ہے۔
رپورٹ: افسر اعوان
ادارت: شامل شمس