جی 20 اجلاس: جرمن چانسلر شولس حتمی اعلامیہ سے ناراض
20 نومبر 2024جرمن چانسلر اولاف شولس نے منگل کے روز برازیل کے شہر ریو ڈی جنیرو میں 20 صنعتی ممالک کے گروپ، یا جی 20 کے سربراہی اجلاس کے اختتام پر جاری کیے گئے اعلامیہ پر تنقید کی۔
انہوں نے کہا، "یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ جی 20 کو یہ واضح کرنے کے لیے الفاظ نہیں مل سکتے کہ روس (یوکرین کی جنگ کے لیے) ذمہ دار ہے۔ یہ وہ نہیں ہے جو مجھے پسند ہے۔"
اسرائیل کی جی ٹوئنٹی اجلاس کے مجوزہ اعلامیے پر سخت ناراضی
شولس نے اس دن کی سنگین سالگرہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، جی 20 کے ساتھی رہنما، روسی صدر ولادیمیر پوٹن پر تنقید کی۔ انہوں نے کہا، "1,000 دن جن میں لوگوں کو ان (پوٹن) کے اندھے خبط کا شکار ہونا پڑا، جو تشدد کے ذریعے اپنے علاقے کو وسعت دینے کی اسکیم پر عمل پیرا ہیں۔"
ٹورس میزائل فراہم نہ کرنے کے فیصلے پر قائم
یوکرین کے بارے میں حتمی اعلامیے پر عدم اطمینان کے باوجود، جرمن چانسلر شولس نے کییف کو طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کی فراہمی روکنے کے اپنے پہلے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ صحیح انتخاب ہے۔
روسی فوجی مداخلت کے ہزار دن: 2025ء فیصلہ کن ہو گا، زیلنسکی
شولس نے اس بات کو واضح کرتے ہوئے کہ جرمنی یورپ میں یوکرین کا سب سے بڑا انفرادی حامی ہے اور رہے گا، کہا کہ جو کچھ انہوں نے کہا وہ "حکمت سے کام لینے" کی اہمیت ہے۔
شولس نے کہا کہ انہوں نے طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائلوں کی جلد فراہمی کی مخالفت کی تھی اور وہ ایسا کرنے میں حق بجانب تھے کیونکہ اس سے جرمن فوجیوں کو روس کے اندر گہرائی میں ہدف کے انتخاب میں شامل ہونے پر مجبور کیا جائے گا۔ جرمن چانسلر کا کہنا تھا کہ اس طرح کے تنازعات میں شامل ہونا "میرے خیال میں درست نہیں ہو گا"۔
خیال رہے کہ یوکرین کے لیے طویل فاصلے تک مار کرنے والے ہتھیار فراہم کرنے کے امریکہ کے فیصلے کی حمایت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
مشرق وسطیٰ پر جی 20 کا اعلامیہ
جرمن چانسلر نے اگرچہ غزہ میں جنگ بندی کے لیے جی 20 کے مطالبات کو سراہا، لیکن انہوں نے کہا کہ انھیں "افسوس ہے کہ اس اعلامیے میں حماس، حزب اللہ اور ایران کے خطرات کے پیش نظر اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق پر توجہ نہیں دی گئی۔
شولس اس بات سے بھی ناراض تھے کہ اعلامیہ عسکریت پسند اسلامی گروپ حماس پر تنازعہ پھیلانے کا الزام لگانے میں ناکام رہا۔
لبنان میں جنگ کا خاتمہ ’اب ہماری پہنچ میں ہے،‘ امریکی ایلچی
اولاف شولس کا کہنا تھا، "مجھے بہت افسوس ہے کہ کوئی اتفاق رائے نہیں ہو سکا۔ اگر ہم کہتے: یہ سب کچھ اسرائیل پر ایک ہولناک اور سفاکانہ دہشت گردانہ حملے سے شروع ہوا تو صورت حال بہتر ہوتی۔"
امریکہ، یورپی یونین، جاپان اور کئی دیگر ممالک حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دے چکے ہیں۔
شولس کے مطابق بالآخر"یہ واضح ہو رہا ہے کہ جغرافیائی سیاسی تناؤ کا جی 20 پر بھی کتنا اثر ہو رہا ہے… بین الاقوامی تعلقات میں چلنے والی ہوا سخت ہوتی جا رہی ہے۔"
موسمیاتی تبدیلی، توانائی اور اقوام متحدہ
جی 20 رہنماؤں کے اعلامیے میں گروپ کی برازیلی صدارت کی ترجیحات پر مبنی کئی پہلو شامل تھے، جیسے کہ بھوک اور موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ کے ساتھ ساتھ عالمی گورننس میں اصلاحات۔
اس نے گلوبل وارمنگ کو 1.5 سینٹی گریڈ تک محدود کرنے کے لیے پیرس معاہدے کی توثیق کی اور سبز توانائی کی طرف منتقلی کی حمایت کرنے کے لیے "آب و ہوا کے مالیاتی فنانس کو تمام ذرائع سے اربوں سے کھربوں تک بڑھانے" پر زور دیا۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے اجلاس کے آخری دن کو موسمیاتی اور ترقی کے نئے وعدوں میں کروڑوں ڈالر کا اعلان کرنے کے لیے استعمال کیا۔
جی 20 نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو مزید نمائندہ بنانے کا ارادہ بھی ظاہر کیا۔
ج ا ⁄ ص ز (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز، ڈی پی اے)