حکومتی بندش، اوباما کے ری پبلکنز سے مذاکرات ناکام
3 اکتوبر 2013امریکی صدر باراک اوباما نے اخراجات سے متعلق بِل کی منظوری کے حوالے سے حکمران جماعت ڈیموکریٹک پارٹی اور اپوزیشن ریپبلکن جماعت کے درمیان موجود اختلافات کو دور کرنے کے لیے اپوزیشن کے اعلیٰ رہنماؤں سے ملاقات کی۔ ری پبلکن ہاؤس کے اسپیکر جان بوئہنر، سینیٹ کے اقلیتی لیڈر مِچ میککونِل، سینیٹ کے ڈیموکریٹک لیڈر ہیری رِیڈ اور پارلیمان میں ڈیموکریٹک سربراہ نینسی پلوسی کے ساتھ امریکی صدر کی یہ ملاقات ایک گھنٹے سے زائد وقت تک جاری رہی۔
تاہم اس ملاقات کے بعد ایسے کوئی اشارے سامنے نہیں آئے جس سے اندازہ ہو کہ لاکھوں سرکاری ملازمین کو بغیر تنخواہوں کے جبری رخصت پر بھیجنے کا سبب بننے والے اس بحران کے حل کا کوئی راستہ نکلا ہے۔ ملاقات کے بعد بوئہنر کا کہنا تھا کہ صدر نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ وہ اپنے موقف سے نہیں ہٹیں گے۔
ملاقات سے قبل باراک اوباما نے CNBC سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ بجٹ سے متعلق معاملات پر اس وقت تک ری پبلکنز کے ساتھ کوئی مذاکرات نہیں کریں گے جب تک وہ ری پبلکن جماعت حکومتی کاروبار حکومت دوبارہ سے چلانے کے لیے حکومتی قرضوں کی حد کو بڑھا کر 16.7 ٹریلین ڈالرز کرنے کا بِل منظور نہیں ہونے دیتی۔
قبل ازیں باراک اوباما نے ری پبلکنز پر الزام لگایا کہ وہ ان کے ہیلتھ کیئر کے قانون کو سبوتاژ کرنے کے لیے حکومت کو یرغمال بنا رہے ہیں۔ کانگریس کے پاس عارضی اخراجات سے متعلق بِل کی منظوری کے لیے 30 ستمبر تک کا وقت تھا تاہم اس پر اتفاقِ رائے نہیں ہو پایا تھا۔ اس کا نتیجہ گزشتہ 17 برس کے دوران پہلی مرتبہ حکومتی اداروں کی جزوی بندش کی صورت میں نکلا۔
ری پبلکنز کا سینیٹ سے مطالبہ تھا کہ وہ ہیلتھ انشورنس سے متعلق قانونی بِل کی منظوری میں ایک برس کی تاخیر کی تجویز منظور کر لے۔ تاہم ڈیمو کریٹس کے زیر انتظام سینیٹ نے یہ تجویز ردّ کر دی تھی۔
حکومتی شٹ ڈاؤن کی وجہ سے وفاقی حکومت کے قریب آٹھ لاکھ ملازمین کو بغیر تنخواہوں کے رخصت پر بھیج دیا گیا ہے۔ کئی وفاقی ایجنسیاں اور محکمے بند ہو چکے ہیں اور صرف وہی ملازمین اس وقت کام پر ہیں جن کی موجودگی وفاقی حکومت کے کاروبار کو چلتا رکھنے کے لیے انتہائی ناگزیر ہے۔
ملک کو درپیش اس بحران کے باعث امریکی صدر اوباما نے اپنا ملائیشیا اور فلپائن کا طے شدہ دورہ بھی منسوخ کر دیا ہے۔