حکومت، طبی عملہ اورعوام افرا تفری کے شکار
21 مئی 2014اقوام متحدہ کی طرف سے پولیو کی روک تھام کے لیے چند اہم اقدامات کے بارے میں پاکستان کو ہدایات جاری کی گئی تھیں، جس کے بعد سے ہسپتالوں میں پولیو کے ٹیکے لگوانے کے لیے شہریوں کا ہجوم دکھائی دے رہا ہے۔
مئی کے اوائل میں ڈبلیو ایچ او کی طرف سے پاکستان سمیت چند دیگر ممالک کو عالمی سطح پر پولیو کے پھیلاؤ کا ذریع قرار دیتے ہوئے متعلقہ حکومتوں سے چند ضروری اقدامات کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ جس کے بعد پولیو ویکسینیشن کے لیے ملک کے تمام ہوائی اڈوں پر خصوصی کاؤنٹر بنانے اور سرٹیفیکیٹ دینے کا فیصلہ کیا گیا۔ عالمی ادارہ صحت نے پولیو کے پھیلاؤ کو دیکھتے ہوئے بین الاقوامی ایمرجنسی نافذ کرنے کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ پاکستان، شام اور کیمرون سے یہ وائرس دنیا بھر میں پھیل رہا ہے۔ ان تینوں ملکوں کی حکومتوں سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ یہ ملک سے باہر سفر کرنے والوں کو دوا دینے کے بعد پولیو ویکیسنیشن کا سرٹیفیکیٹ بھی جاری کریں۔
اس سلسلے میں حکومت کی طرف سے کیے جانے والے اقدامات کے نتیجے میں عوام کی بڑی تعداد ہسپتالوں کا رُخ کر رہی ہے اور ہر کوئی جلد از جلد پولیو کے ٹیکے لگوانے کی کوشش کر رہا ہے، اکثر ہسپتالوں میں برہمی اور افراتفری کے سین دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت ہو رہا ہے جب ملک میں گرمیاں اور سفر و سیاحت کا موسم عروج پر ہے۔ موسم گرما میں پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد یورپی ملک برطانیہ کا سفر کرتی ہے جہاں ایک بڑی پاکستانی برادری آباد ہے۔ وہاں اُن کے عزیز و اقارب کے ہاں شادی اور دیگر تقاریب کا انعقاد ہوتا ہے۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ ایک عرصے سے پاکستانی حکام کے ساتھ پولیو کی روک تھام کے سلسلے میں صلاح و مشوروں اور مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے، انتظامیہ کو چاہیے تھا کہ وہ اس عالمی ادارے کی ہدایات پر عمل در آمد کی تیاری بہتر طور پر اور منظم طریقے سے کرتی۔ اگر ایسا ہوا ہوتا تو عوام میں افرا تفری نہیں پھیلتی۔
اسلام آباد میں قائم بچوں کے ایک ہسپتال کا ماحول عام طور سے خوشگوار نظر آتا ہے، جہاں کی دیواروں پر بچوں کے کارٹونز کے بڑے بڑے پوسٹرز لگے ہوئے ہیں اور بچوں کی دلچسپی کی چیزوں سے اس ہسپتال کو سجایا گیا ہے۔ تاہم پولیو کی روک تھام سے متعلق ہنگامی صورتحال کے پیش نظر ان دنوں اسی ہسپتال میں ناخوشگوار مناظر دیکھنے میں آ رہے ہیں، بڑی تعداد میں فیملیاں اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلوانے کے انتظار میں گھنٹوں صرف کر رہی ہیں اور طبی عملے کی طرف سے اگر انہیں یہ سننے کو ملے کہ، ’’دیر سے آنے والے حضرات کل دوبارہ تشریف لائیں‘‘، تو وہ مایوسی اور غُصے کے عالم میں ڈاکٹروں پر برس پڑتے ہیں۔
بچوں کے ہسپتال کے ڈاکٹروں کے لیے بھی یہ کٹھن وقت ہے۔ اسلام آباد کے بچوں کے ہسپتال کے ایک ڈاکٹر تابش حاضر ایسی ہی صورتحال سے تنگ آکر کہنے لگے، " آپ لوگوں کو پولیو ویکسین فراہم کرنا ہماری ڈیوٹی نہیں ہے، ہماری ذمہ داری اُن بیمار بچوں کا علاج اور دیکھ بھال کر نا ہے، جو ہمارے ہسپتال آتے ہیں"۔ ڈاکٹر تابش نے اے ایف پی کو بیان دیتے ہوئے سخت برہمی میں کہا،"ہم یہ سب موجودہ افراتفری کی صورتحال میں کر رہے ہیں۔ حکومت تیار نہیں تھی، اُس کے لیے اقوام متحدہ کی سفارشات بالکل غیر متوقع تھیں، ڈبلیو ایچ او کا سفری پابندیوں کا اعلان بم کی مانند اچانک آ گرا۔‘‘
یاد رہے کہ پاکستان میں طالبان سے وابستہ دہشدت پسند گروہوں نے 2012ء میں جنوبی اور شمالی وزیرستان میں پولیو کے قطرے پلانے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ انہوں نے الزام لگایا تھا کہ پولیو مہم کی آڑ میں جاسوسی کی جاتی ہے۔