حکومت کا امیج بیرونی امداد کی راہ میں رکاوٹ:عابد سلہری
26 نومبر 2010پاکستان کے اِس سال کے تباہ کن سیلاب کے بعد کی صورتحال پر جرمنی کے مختلف حلقوں میں بھی تشویش پائی جاتی ہے۔ اِسی موضوع پر جرمنی کی ماحول پسند گرین پارٹی سے قریبی وابستگی رکھنے والی ’ہائنرش بوئل فاؤنڈیشن‘ نے گزشتہ شب جرمن دارالحکومت برلن میں ایک مباحثے کا انعقاد کیا۔ موضوع تھا، ’پاکستان، سیلاب کے بعد: اس ملک کو پائیدار تعمیر نو کے لئے کن کن چیزوں کی ضرورت ہے‘۔
اس بحث میں حصہ لیا، پاکستان کی عسکری امور اور پالیسیوں کی معروف ماہر ڈاکٹر عائشہ صدیقہ، اسلام آباد کے ’Sustainable development Policy Institute’ کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد سلہری، پشاور کی تنظیم Citizens Rights and sustainable development سے منسلک محمد ادریس کمال اور پشاور ہی سے صوبہ پختونخواہ کی ممبر پارلیمان شگُفتہ ملک نے۔ اس مباحثے کا مقصد پاکستانی ماہرین اور جرمن امدادی تنظیموں کے نمائندوں کو مل بیٹھنے کا ایک موقع فراہم کرنا تھا۔ اِس مباحثے کے دوران پاکستان کی تاریخ کے بدترین سیلاب کے تین ماہ بعد متاثرین کی صورتحال، عالمی برادری کی طرف سے جاری امدادی کارروائیوں اور تباہ شدہ علاقوں کی تعمیر نو کے اب تک کے کاموں کا جائزہ لیا گیا۔
اس موقع پر ڈاکٹرعابد سلہری نے پاکستان کو ملنے والی عالمی امداد کے حوالے سے کہا ’اس وقت پاکستان کی تعمیر نو کے کاموں کے لئے عالمی امداد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بیرونی ممالک میں حکومت پاکستان کے بارے میں پایا جانے والا امیج بن رہا ہے۔ عام خیال یہی ہے کہ اسلام آباد حکومت بد عنوان اور نا اہل ہے اور وہاں کے ادارے متاثرین تک امداد پہچانے میں ناکام رہے ہیں۔ میں ان بہت سے خدشات اور اعتراضات سے اتفاق کرتا ہوں تاہم اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس وجہ سے متاثرین سیلاب کو درپیش مسائل کو نظر انداز کر دیا جائے۔ ہمارے ہاں ایک مضبوط کنٹرول اسیسمنٹ میکانزم پایا جاتا ہے۔ غیر جانبدار پارٹیوں اور مبصرین کو چاہئے کہ وہ حکومت کی طرف سے جاری تعمیر نو کے کاموں کا تنقیدی جائزہ لیں۔ تاہم سر دست ہمیں بجٹ کی ضرورت ہے۔ مزید غیر ملکی امداد پر ہی ملک کی مجموعی ترقی سمیت متاثرین سیلاب کی امداد کا انحصار ہے‘۔
ڈاکٹر سلہری نے کہا کہ پاکستان آج کل متعدد سنگین مسائل سے دو چار ہے۔ سیلاب کی تباہ کاریوں نے جہاں ملک کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا ہے، وہاں ملک کے ترقیاتی شعبوں پر بھی کاری ضرب لگی ہے۔ ڈاکٹر عابد سلہری کے مطابق پاکستان اس وقت غذائی قلت، قدرتی وسائل کی تباہی، توانائی کی پیداوار میں مزید سست رفتاری اور فصلوں کے تباہ ہو جانے سے زرعی شعبے کو پہنچنے والے نقصانات کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ ڈاکٹر عابد سلہری کے بقول’حکومت ملکی خزانے کے پبلک سیکٹر ڈیویلپمنٹ پروگرام کے بجٹ سے تقریباً نصب بلین ڈالر سیلاب زدگان کی امداد کے لئے مختص کرنے کا اعلان کر چکی ہے۔ تاہم ملک کے دیگر سوشل سیکٹر پروگراموں کو روکنے کا مطلب پوری قوم کو ترقی سے محروم کرنا ہوگا، جن میں صحت، زراعت، تعلیم، پینے کے صاف پانی کی فراہمی اور حفظان صحت جیسے اہم شعبے شامل ہیں۔ اگر حکومتی خزانے کی رقوم کو ان شعبوں میں استعمال نہ کیا گیا تو اس کا مطلب ہوگا، ملکی اقتصادی انجن کو ایندھن سے محروم کر دینا۔ اس طرح پاکستان کی پائیدار ترقی کی کوششوں کو مزید نقصان پہنچے گا‘۔
ہائنرش بوئل فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام منعقدہ اس مباحثے میں اس موضوع پر بھی روشنی ڈالی گئی کہ آخر پاکستان کے دولت مند طبقے کی طرف سے امدادی کاموں میں اتنی کم شمولیت کیوں دیکھنے میں آ رہی ہے۔ سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ پاکستان کے عسکری بجٹ اور اس امر کو بنایا گیا کہ پاکسان میں محض 3 فیصد افراد ٹیکس ادا کرتے ہیں۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: امجد علی