خالدہ ضیاء کے وارنٹ گرفتاری جاری
25 فروری 2015عدالت کے جج ابو احمد جمعدار نے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے سے پہلے وکلائے صفائی کی جانب سے پیش کی گئی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی۔ وکلائے صفائی مزید مہلت مانگ رہے تھے، یہ کہتے ہوئے کہ خالدہ ضیاء نہ صرف بیمار ہیں بلکہ ملک میں جاری سیاسی بد امنی کے باعث اُن کی سلامتی کے حوالے سے بھی خدشات پائے جاتے ہیں۔
فوری طور پر یہ بات واضح نہیں ہو سکی ہے کہ آیا خالدہ ضیاء کو جلد ہی گرفتار بھی کر لیا جائے گا۔ پہلے عدالتی حکم اُس پولیس اسٹیشن کو بھیجا جائے گا، جہاں بدعنوانی کے یہ مقدمات درج ہوئے تھے۔ استغاثہ کے وکیل مشرف حسین کاجول نے کہا کہ ’آئندہ اقدامات کا فیصلہ حکام قانون کی روشنی میں کریں گے‘۔
سابق وزیر اعظم ضیاء پر عائد الزامات میں اُس مبینہ طور پر غیر قانونی فنڈ کا قیام بھی شامل ہے، جو خالدہ ضیاء کے مرحوم شوہر اور سابق صدر ضیاء الرحمان سے موسوم ایک فلاحی ادارے کے لیے قطعہٴ اراضی خریدنے کے لیے استعمال کیا گیا۔
خالدہ ضیاء کے وکلاء نے یہ الزامات رَد کر دیے ہیں کہ سابق وزیر اعظم نے اِس فلاحی ادارے کے لیے ایک ملین ڈالر سے زیادہ کے عطیات غیر قانونی طور پر جمع کیے۔ اِن وکلاء کا کہنا ہے کہ خالدہ ضیاء پر لگائے گئے الزامات کے پیچھے سیاسی محرکات کارفرما ہیں جبکہ حکام کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔
خالدہ ضیاء پر اِن الزامات کے تحت فردِ جرم گزشتہ سال کے اوائل میں عائد کی گئی تھی لیکن جب وہ چوبیس جنوری کو عدالت میں پہنچیں اور اُن کے حامیوں نے پولیس پر حملہ کرنے کے ساتھ ساتھ حکمران جماعت کے کارکنوں کے ساتھ لڑائی کی تو ہنگاموں کا ایک ایسا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا، جس میں اب تک ایک سو افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ حکام کا کہنا تھا کہ یہ پُر تشدد ہنگامے مقدمات کا راستہ روکنے کی ایک کوشش تھے جبکہ ضیاء کے حامیوں کا موقف ہے کہ حملوں کا سلسلہ حکمران جماعت کے کارکنوں نے شروع کیا۔
اِس کے بعد عدالت کی جانب سے خالدہ ضیاء کو بار بار مقدمات کی سماعت کے لیے عدالت میں حاضر ہونے کے احکامات جاری کیے جاتے رہے تاہم سکیورٹی خدشات اور بیماری کے باعث ضیاء عدالت میں حاضر نہ ہوئیں۔ بدھ چوبیس فروری کو اُنہوں نے چوتھی مرتبہ عدالتی احکامات کو نظر انداز کیا، جس کی بناء پر جج نے اُن کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے۔
بعد ازاں وکیل صفائی ثناء اللہ میاں نے صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہا: ’’آج ہم نے عدالت سے اپیل کی تھی کہ ہمیں مزید مہملت دی جائے کیونکہ وہ (ضیاء) بیمار ہیں لیکن عدالت نے ہماری اپیل مسترد کر دی اور وارنٹ جاری کر دیے۔‘‘
بنگلہ دیشی قانون کے تحت اگر خالدہ ضیاء گرفتاری سے بچنے کے لیے ضمانت کروانا چاہتی ہیں تو اُن کا خود عدالت میں حاضر ہونا لازمی ہے۔
ان مقدمات میں خالدہ ضیاء کا بڑا بیٹا طارق رحمان بھی نامزد ہے، جو آج کل لندن میں مقیم ہے اور جو ممکنہ طور پر بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی میں اپنی والدہ کا سیاسی جانشین بنے گا۔ بدھ کو عدالت نے طارق رحمان کو چار مارچ کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم جاری کیا۔
69 سالہ خالدہ ضیاء آج کل بیس جماعتوں پر مشتمل ایک سیاسی اتحاد کی قیادت کر رہی ہیں۔ ضیاء نے جنوری 2014ء میں منعقدہ عام انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا، جس کے باعث اُن کی حریف شیخ حسینہ واجد بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئیں۔ جہاں خالدہ ضیاء اور اُن کے حامی وزیر اعظم حسینہ کے استعفے اور جلد از جلد دوبارہ انتخابات کے انعقاد پر زور دے رہے ہیں، وہاں شیخ حسینہ واجد کا موقف یہ ہے کہ 2019ء میں اُن کی پانچ سالہ آئینی مدت کے خاتمے سے پہلے نئے انتخابات منعقد کروانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
بنگلہ دیش میں سیاسی تعطل دُور نہ ہونے کی ایک اور وجہ ملک کی سب سے بڑی مذہبی جماعت ’جماعت اسلامی‘ بھی ہے، جو ضیاء کی حلیف ہے اور جس کے کئی سرکردہ رہنماؤں کو حسینہ انتظامیہ کی جانب سے 1971ء میں ’جنگِ آزادی‘ کے دوران جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات کے تحت سزائیں سنائی جا چکی ہیں۔
جماعتِ اسلامی نے بنگلہ دیش کے قیام کی کھلم کھلا مخالفت کی تھی اور اُس پر الزام ہے کہ اُس نے ایسے ملیشیا گروپ بنا رکھے تھے، جنہوں نے بنگلہ دیش کے قیام کے حامیوں کو اغوا اور قتل کیا۔ بنگلہ دیش کا کہنا ہے کہ پاکستانی فوجیوں نے 1971ء میں پاکستان سے آزادی کے حصول کی جدوجہد کے دوران مقامی مددگاروں کے ساتھ مل کر تین ملین افراد کو قتل اور دو لاکھ خواتین کو بے آبرو کیا۔