خواب آتے کیوں ہیں؟ نہ آئیں تو کیا ہو؟
22 جون 2018کچھ لوگ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ فقط چار یا پانچ گھنٹے سو جائیں، تو مکمل طور پر فٹ ہوتے ہیں اور نئے دن کے معمولات سے نمٹنے کے لیے مستعد اور تیار ہو جاتے ہیں۔ مگر محققین کے مطابق صحت کے اعتبار سے یہ ایک فضول بات ہے۔ ہمارے جسم کو افعال کی انجام دہی کے لیے توانائی جمع کرنے میں کہیں زیادہ وقت درکار ہوتا ہے۔
ہم سوتے کیوں ہیں؟
ایک اوسط انسان اپنی عمر کا قریب ایک تہائی حصہ سو کر گزارتا ہے۔ کیا یہ وقت کا ضیاع ہے؟ بات اس کے برعکس ہے۔ آپ نے شاید غور نہ کیا ہوا مگر یہ نیند ہی ہے کہ انسان افعال انجام دے سکتے ہیں۔
کیا قیلولہ صحت کے لیے مفید ہے؟
’نیند اہم ہے، اسے ہلکا نہ لیں‘
کم نیند کا الزام ٹیکنالوجی یا جدید طور طریقوں کو دینا غلط
گہری نیند، آنکھوں کی تیز حرکات یا ریم، نیند کے یہ ادوار ہر نوے منٹ میں اپنا احیا کرتے ہیں۔ گہری نیند میں ہمارا جسم کسی کمپیوٹر کی طرح پس پردہ بہت سی ’اپ ڈیٹس‘ کرتا ہے۔ جسم ایسے میں ہارمونز پیدا کرتا ہے، جو مدافعاتی نظام کی درستی اور تحریک کا کام سرانجام دیں، تاکہ دفاعی خلیات وائرسز اور بیکٹیریا سے لڑ سکیں۔ اسی لیے آپ گہری نیند سوتے ہیں۔
ریم سلیپ میں دماغ دن بھر انجام دیے گئے افعال کا دوبارہ جائزہ لیتا ہے اور ان کو بہتر طریقے سے انجام دینے کی حکمتِ عملی طے کر کے انہیں ’مختصر دورانیے والی یادداشت‘ میں رکھ چھوڑتا ہے۔ مگر ایسا بھی ممکن ہے کہ آپ کو آنے والے خواب مکمل طور پر بے ربط ہوں اور ان کا آپ کی نجی زندگی سے کوئی تعلق ہی نہ ہو۔
نیند کتنی ہونا چاہیے، اس کے حوالے سے امریکی نینشل سلیپ فاؤنڈیشن کا کہنا ہے کہ کسی نومولود بچے کو 14 تا 17 گھنٹے یومیہ سونا چاہیے (تاہم یہ بات واضح ہے کہ کوئی بچے 14 گھنٹے سے زائد ایک ہی تسلسل میں سو نہیں سکتا)۔
اس فاؤنڈیشن کے مطابق پرائمری اسکول کی عمر کے بچوں کو نو سے گیارہ گھنٹے روزانہ سونا چاہیے، جب کہ ان سے بڑے بچوں کو سات تو نو گھنٹے نیند لینا چاہیے۔ اس فاؤنڈیشن کے مطابق بالغ افراد کو ہرشب کم از کم چھ گھنٹے ضروری سونا چاہیے۔
اس فاؤنڈیشن کا تاہم یہ بھی کہنا ہے کہ دس گھنٹوں سے زائد سونا صحت کے لیے نقصان دہ بھی ہے۔ کیمبرج یونیوسٹی کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ آٹھ گھنٹوں سے زائد سونے والے افراد میں اسٹروک کے خطرات میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
ع ت / ع ح