’خواتین کو بیواؤں کی طرح پیش ہونے پر مجبور کیا گيا،‘ بھارت
28 دسمبر 2017بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج کا کہنا ہے کہ نئی دہلی حکومت نے اسلام آباد میں کلبھوشن یادیو اور ان کے اہل خانہ کی ملاقات کے دوران کیے گئے مبینہ ’غیر انسانی سلوک‘ پر پاکستان سے باقاعدہ احتجاج کیا ہے۔ پاکستان میں جاسوسی کے الزام میں جیل میں بند بھارتی شہری کلبھوشن یادیو کے حوالے سے مودی حکومت کی حکمت عملی پر شدید تنقید کی گئی ہے اور ملکی سیاسی جماعتیں اس معاملے میں حکومت سے وضاحت طلب کر رہی تھیں۔ اسی لیے جمعرات اٹھائیس دسمبر کو بھارتی پارلیمان میں اجلاس کی کارروائی شروع ہوتے ہی ملکی وزیر خارجہ سشما سوراج نے حکومتی موقف پیش کیا اور پاکستان پر کھل کر تنقید کی۔
کلبھوشن سے پاکستان میں ملاقات: بھارت میں اب داخلی سیاست گرم
کلبھوشن کی اہل خانہ سے ملاقات: بھارت کی پاکستان پر کڑی تنقید
انہوں نے الزام لگایا کہ اس ملاقات کے عمل میں بار بار انسانی حقوق کو پامال کیا گیا۔ سشما سوراج نے کہا، ’’نہ تو اس عمل میں انسانیت تھی اور نہ ہی خیرسگالی کا جذبہ۔ اس طرح کے برتاؤ پر پاکستان کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی جانا چاہیے۔‘‘
سشما سوراج نے اپنے پارلیمانی بیان میں پاکستان پر کئی الزام عائد کیے لیکن کلبھوشن یادیو کی اہلیہ کے جوتے واپس نہ کرنے کے معاملے پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’ہمیں جس طرح کی شرارت کا شک تھا، وہ سچ ہونے لگا ہے۔ دو روز سے ٹی وی پر دکھایا جا رہا ہے، کبھی کہتے ہیں کہ جوتے میں کیمرہ تھا، کبھی کہتے ہیں کہ الیکٹرانک چپ تھی، کبھی کہتے ہیں ایک ریکارڈر تھا۔ اگر جوتے میں چِپ تھی، تو اسی وقت میڈیا کو کیوں نہیں بتایا گيا۔ اب شرارت کر کے غلط باتیں کہی جا رہی ہیں۔‘‘
سشما سوراج کا کہنا تھا کہ کلبھوشن یادیو کی اہلیہ ایئر انڈیا کی پرواز سے پہلے دبئی گئیں اور پھر وہاں سے وہ امارات کی ایک فلائٹ سے اسلام آباد پہنچی تھیں۔ ’’یہ کہا جا سکتا ہے کہ ایئر انڈیا نے شاید مدد کی ہو، لیکن امارات ایئر لائنز کی پرواز میں سوار ہونے سے قبل تو سکیورٹی چیک ہوا تھا۔ وہاں تو جوتے میں کوئی چِپ یا کیمرہ نظر نہیں آیا تھا۔‘‘
کلبھوشن یادیو بھارت کا دہشت گرد چہرہ ہے، پاکستانی دفتر خارجہ
سشما سوراج نے پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں اس موضوع پر ایک جیسا بیان دیا، جس میں انہوں نے تقریباﹰ وہی الزامات دوہرائے جو اس سے قبل دفتر خارجہ کے ترجمان رویش کمار کی طرف سے بھی لگائے گئے تھے۔ بھارتی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ کلبھوشن یادیو کے اہل خانہ نے انہیں بتایا کہ کلبھوشن کافی ذہنی دباؤ میں نظر آ رہے تھے، ’’ان کی بات چیت سے واضح ہوتا جا رہا تھا کہ کلبھوشن وہی سب کچھ کہہ رہے تھے، جو پاکستانی حکام نے انہیں کہہ کر بھیجا تھا۔ اس کا مقصد ان کی نام نہاد سرگرمیوں سے متعلق جھوٹی داستان کو ثابت کرنا تھا۔‘‘
بھارتی وزیر خارجہ نے اسلام آباد میں اس ملاقات سے پہلے دونوں خواتین کے منگل سوتر اور بندیاں اتروانے کی بھی مذمت کی اور کہا کہ پاکستانی حکام نے دانستہ طور پر ان دونوں ’خواتین کو مجبور کیا کہ وہ کلبھوشن کے سامنے بیواؤں کی طرح‘ پیش ہوں۔ ’’اس سے زیادہ انسانی تذلیل اور کیا ہوگی؟‘‘
سوراج کے اس بیان کی قریب سبھی پارلیمانی ارکان نے حمایت کی اور پھر تقریباﹰ سبھی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے اپنے اپنے خطاب میں پاکستان کو نشانہ بنایا۔
کانگریس پارٹی کے رہنما غلام نبی آزاد کا کہنا تھا کہ پاکستان نے صرف کلبھوشن یادیو کے اہل خانہ کے ساتھ ہی ’برا سلوک‘ نہیں کیا بلکہ ایسا ’بھارت کی ہر ماں اور بیٹی کے ساتھ ہوا، جو قریب سوا ارب لوگوں کی توہین ہے‘۔
بعض ارکان نے مطالبہ کیا کہ ایوان کو اس موقع پر پاکستان کے خلاف اتفاق رائے سے ایک مذمتی قرارداد بھی منظور کرنا چاہیے۔ سبھی اراکین نے حکومتی بیان کی تائید کی اور کہا کہ وہ اس معاملے میں حکومت کے ساتھ ہیں۔ ایسے میں کمیونسٹ پارٹی کے ایک رہنما ڈی راجہ نے کہا کہ وہ اس مسئلے کی نزاکت سے واقف ہیں تاہم ’اس واقعے کو دونوں ممالک کے باہمی تعلقات کو مزید خراب کرنے کے لیے استعمال نہ کیا جائے‘۔
بعض ارکان پارلیمان نے اس حوالے سے ملکی میڈیا کے روپے پر بھی سوال اٹھائے اور کہا کہ ذرائع ابلاغ کو اس بارے میں ذمہ داری سے کام لینے کی ضرورت ہے اور اس طرح کے معاملات میں اشتعال انگیزی سے گریز کیا جانا چاہیے۔