خواتین کے لیے ٹیکسی سروس کا آغاز کرنے والی حرا بتول
10 اپریل 2016ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو میں اسلام آباد کی رہائشی حرا نے بتایا کہ انہیں یہ احساس تھا کہ جڑواں شہروں میں بہت سی خواتین دفتر جانے کے لیے گاڑی نہ ہونے کے باعث پبلک ٹرانسپورٹ یا پرائیویٹ ٹیکسیوں پر انحصار کرتی ہیں۔ اکثر بسوں اور ویگنوں میں خواتین کے لیے جگہ بہت کم ہوتی ہے اور ٹیکسی کی سہولت بہت مہنگی ہے۔
امریکا سے اسکالرشپ پر ماسٹرز کی تعلیم حاصل کرنے والی حرا واپس پاکستان آکر اس ملک کے لیے کچھ کرنے کی خواہش رکھتی تھیں۔ اپنی تعلیمی قابلیت اور صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے حرا نے راولپنڈی اور اسلام آباد میں ایک مارکیٹ سروے کیا، جس سے پتا چلا کہ اس جڑواں شہروں میں لگ بھگ تین لاکھ خواتین کو سفری سہولیات کی ضرورت ہے۔ مارکیٹ سروے سے یہ بھی پتا چلا کہ ان شہروں میں قریب 55 ہزار ٹیکسیاں چلتی ہیں لیکن ان کے ریٹس مختص نہیں ہیں اور ٹیکسی ڈرائیور اپنی مرضی سے گاہکوں سے پیسے طلب کرتے ہیں۔
حرا کہتی ہیں،''میں امریکا کی دو کمپنیوں 'اوبر‘ اور 'لفٹ‘ سے متاثر تھی۔ جب میں نے دیکھا کہ یہ کتنا اچھا کام کر رہی ہیں اور کتنی کامیاب ہیں تو مجھے پاکستان میں اس طرز کی ایک کمپنی بنانے کا خیال آیا لیکن ایسی کمپنی جس سے خواتین مستفید ہوں۔‘‘ حرا نے مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق 'شی کیب‘ نامی سروس کا آغاز اگست 2015ء میں کیا ۔'شی کیب‘ پاکستان کی پہلی خواتین کی ٹیکسی سروس ہے۔ اس کا مقصد خواتین کو محفوظ، سستی اور قابل بھروسہ ٹرانسپورٹ کی سہولت فراہم کرنا ہے۔ حرا کہتی ہیں، ''اس سہولت کے ذریعے ہم ان تمام خواتین کو با اختیار بنانے میں مدد فراہم کر رہے ہیں جن کے لیے اپنے گھروں سے دفاتر پہنچنا ایک بڑا مسئلہ ہے۔‘‘
جو خواتین بھی اس سہولت کو استعمال کرنا چاہتی ہیں وہ ایک فون کال یا شی کیب کی ویب سائٹ پر جا کر کہہ سکتی ہیں۔ اس سوشل انٹرپرونیوشپ منصوبے میں حرا نے دو خواتین ڈارئیورز سمیت کل 22 ڈارئیور رکھے ہیں۔ کل آمدنی کا پانچ فیصد ان ڈرائیوروں کو شی کیب کو دینا ہوتا ہے باقی 95 فیصد ان کا اپنا حصہ ہوتا ہے۔ حرا کہتی ہیں کہ خواتین عام ٹیکسی کے مقابلے میں اس سہولت کو اس لیے بھی پسند کرتی ہیں کیوں کہ ان ڈرائیور ایک ضابطے کے تحت کرایہ مانگتے ہیں جو کہ مارکیٹ ریٹ سے کچھ حد تک کم ہے۔
شی کیب میں کام کرنے والے تمام ڈرائیوروں کو ملازمت پر رکھنے سے پہلے ان کی مکمل جانچ پڑتال کی جاتی ہے اور انہیں خواتین کے ساتھ برتاؤ کے بارے میں بھی شعور و آگاہی دینے کی کوشش کی جاتی ہے۔ حرا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’فی الحال ہمارے پاس صرف دو خاتون ڈرائیور ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ زیادہ خواتین ڈرائیورز کو رکھا جائے، اس حوالے سے ہماری کوشش جاری ہے۔‘‘ کئی سو خواتین شی کیب سہولت کو استعمال کر رہی ہیں لیکن ان کی مستقل گاہک لگ بھگ 50 خواتین ہیں جو ہفتے کے پانچ یا چھ دن دفاتر جانے کے لیے شی کیب کی ٹیکسی سروس کو استعمال کر رہی ہیں۔
حرا کہتی ہیں کہ پاکستان میں زیادہ سے زیادہ خواتین کو اپنے کاروبار کی جانب آنا چاہیے۔ اس سے نہ صرف وہ خود اپنا ذریعہ آمدنی پیدا کریں گی بلکہ بہت سے دیگر افراد کو بھی ان کے کاروبار کی بدولت نوکریاں ملیں گی۔ وہ تمام لوگ جو اپنے کام کا آغاز کرنے کی خواہش رکھتے ہیں ان کو حرا کہتی ہیں، ’’ نئے کاروبار کا آغاز کرنے والے افراد کی کہانیاں پڑھیں، مارکیٹ میں مقابلے کا اندازہ لگائیں اور اپنے آئیڈیاز ان کے ساتھ شیئر کریں، جو آپ کی حوصلہ افزائی کریں۔‘‘
شی کیب ابھی صرف راولپنڈی اور اسلام آباد میں سہولیات فراہم کر رہی ہے لیکن حرا پاکستان کے دیگر شہروں میں بھی اس سروس کے آغاز کا ارادہ رکھتی ہیں۔