خود کش حملے اسلام کے خلاف، طاہر القادری کا فتویٰ
4 مارچ 2010طاہرالقادری کی سنی تحريک منہاج القرآن دينا بھر ميں سرگرم ہے۔ يہ تنظيم برطانيہ ميں بھی بہت فعال ہے اور طاہرالقادری کو اب برطانيہ ميں بھی ايک معروف مذہبی شخصيت کی حيثيت حاصل ہوچکی ہے۔ برطانيہ ميں طاہرالقادری کی تنظيم کی 10 مساجد ہيں اوروہاں اُن کے پيروکاروں کی تعداد بھی اچھی خاصی ہے۔
منہاج القرآن کا کہنا ہے کہ وہ خاص طور پر نوجوان مسلمانوں پر توجہ دے رہی ہے جنہيں ،بقول اُس کے، روايتی مذہبی رہنماؤں نے مايوس کيا ہے۔ منہاج القرآن اور طاہر القادری کو برطانوی حکام کی توجہ حاصل ہورہی ہے جو دہشت گردی کے خلاف جنگ ميں ساتھيوں کی تلاش ميں ہيں۔
طاہرالقادری نے اپنے 600 صفحات پر مشتمل فتوے ميں القاعدہ کو ايک پرانی برائی قرار ديا ہے جسے ايک نيا نام ديا گيا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ ان کے فتوے سے القاعدہ کے پرتشدد نظريات کا سارا تانا بانا ٹوٹ گيا ہے۔ اُنہوں نے اپنے فتویٰ ميں کہا ہے کہ کسی قسم کے اگر مگر کے بغير دہشت گردی کی اسلامی تعليمات ميں کوئی گنجائش نہيں ہے اور اس کا نہ تو کوئی جواز ہے اور نہ ہی اس سلسلے کوئی عذر پيش کيا جاسکتا ہے۔
طاہرالقادری نے يہ فتویٰ پاکستان ميں مسلسل جاری دہشت گردانہ حملوں اور برطانوی يونيوررسٹيوں ميں زير تعليم مسلم نوجوانوں ميں شدت پسندی کے بڑھتے ہوئے رجحانات کے پس منظر ميں ديا ہے۔ تاہم انہوں نے اسلام کے نام پر کی جانے والی دہشت گردی پر عمومی تنقيد کی ہے۔
طاہر القادری نے قرآنی آيات اور دوسرے حوالوں سے يہ با لکل واضح کرديا ہے کہ اس قسم کے تشدد کا اسلام سے کوئی تعلق نہيں ہے۔ اُنہوں نے يہاں تک کہا ہے کہ دہشت گرد اور خودکش حملہ آور کافر ہيں اور دہشت گردانہ حملوں کے سلسلے ميں شہادت اور جہاد کے الفاظ کو بالکل استعمال نہيں کيا جانا چاہئے۔ انہوں نے کہا: ''پچھلے ايک دو عشروں سے غلط طور پر اسلام کا نام ليتے ہوئے جس شکل ميں بھی دہشت گردی کی جا رہی ہے، اس کو ميں مکمل طور پر رد کرتا ہوں۔''
طاہرالقادری کے فتوے کو برطانيہ اور اُس سے باہر ممالک ميں ايسے حلقوں کی خاص توجہ حاصل ہورہی ہے جو ہميشہ يہ کہتے رہتے ہيں کہ مسلم علماء اور مذہبی رہنما دہشت گردی کی کھل کر مذمت نہيں کررہے ہيں۔ تاہم حقيقت يہ ہے کہ يہ فتویٰ ،دہشت گردی کے خلاف مسلم علماء کا پہلا فتویٰ نہيں ہے۔ لندن کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد برطانوی مساجد کے اماموں نے دہشت گردی کی سخت مخالفت کی تھی۔ ویانا ميں بھی اسی قسم کا فتوہ جاری کيا گیا تھا۔
جرمنی ميں مسلم انجمنوں کے رہنما بھی اسی طرح کا اعلان جاری کر چکے ہيں۔ سعودی عرب ميں شاہی خاندان سے قربت رکھنے والے علماء دہشت گردی کی کھلی مذمت کرچکے ہيں ۔ قاہرہ کی مشہور الازہر يونيورسٹی کے بلند پايہ عالم شيخ طنطاوی بھی يہ کہ چکے ہيں کہ بے گناہ شہريوں کو ہلاک کرنے کا کوئی جواز نہيں ہو سکتا اور اگر دہشت گرد يہ کہتے ہيں کہ وہ اسلامی احکام پر عمل کررہے ہيں تو وہ جھوٹے اور دھوکے باز ہيں اور اسلام کا اُن سے کوئی تعلق نہيں ہے۔
اسلام کے سخت ترين ناقدين بھی يہ تسليم کرتے ہيں کہ دہشت گرد مسلمانوں ميں ايک معمولی سی اقليت ہيں۔ اس گمراہ اقليت پرحاليہ فتویٰ کا بھی مشکل ہی سے کوئی اثر ہوگا بلکہ وہ طاہرالقادری کو اپنا دشمن سمجھيں گے اور اُن سے ايسا ہی سلوک کريں گے۔ مسلمانوں کی بڑی اکثريت کو اس فتویٰ سے پہلے ہی يہ علم ہے کہ اسلام ميں دہشت گردی کی کوئی گنجائش نہيں ہے۔
رپورٹ: شہاب احمد صدیقی
ادارت: کشور مصطفیٰ