خیبر پختونخوا میں اقلیتی عبادت گاہوں کی حفاظت کا منصوبہ
13 جون 2014ایسی عبادت گاہوں پر حملوں میں اضافے نے اقلیتی برادریوں کو بھی تشویش میں مبتلا کر دیا ہے، بالخصوص آل سینٹس چرچ پر خود کش حملوں کے بعد حکومت سے ایسی عبادت گاہوں کی سکیورٹی بڑھانے اور مؤثر اقدامات کے مطالبے بھی کیے جا رہے تھے۔
حال ہی میں پشاور حکومت نے صوبے میں تمام غیر مسلم عبادت خانوں کی حفاظت کے لیے لائحہ عمل کا اعلان کیا۔
اس نئی پالیسی کے مطابق ہر اقلیتی عبادت گاہ کے لیے علاقے کی اقلیتی برادری چار رضا کار فراہم کرے گی، جو کسی بھی چرچ، مندر یا گردوارے میں داخل ہونے والوں کو پہچان سکیں گے اور دہشت گردی کے ممکنہ واقعات کو روکنے میں مدد دے سکیں گے۔ جب اس سلسلے میں اقلیتی اُمور کے وزیر سردار سورن سنگھ سے ڈوئچے ویلے نے بات کی، تو انہوں نے کہا،
”حکومت نے مندروں، گرجا گھروں اورگردواروں کی حفاظت کے لیے کمیونٹی پولیس بھرتی کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور ان لوگوں کو باقاعدہ تربیت دی جائے گی۔ تربیت مکمل کرنے کے بعد یہ رضاکار مقامی پولیس کا ساتھ دیں گے اور انہیں وردی اور سرکاری اسلحہ بھی دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ انہیں وہ تمام سہولیات اور مراعات بھی دی جائیں گی جو عام پولیس اہلکاروں کو دی جاتی ہیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ اس کے ساتھ ہی صوبے بھر میں مذہبی اقلیتی عبادت گاہوں میں سی سی ٹی وی کیمرے، میٹل ڈیٹیکٹرز اور دیگر جدید سکیورٹی آلات بھی لگائے جائیں گے۔
لیکن خیبر پختونخوا میں رہائش پذیر اقلیتی برادریاں جہاں اپنی عبادت گاہوں کی حفاظت کی لیے کیے جانے والے اقدامات سے مطمئن نہیں ہیں وہاں پر وہ مختلف سرکاری اور غیر سرکاری ملازمتوں، تعلیم اور صحت کے شعبوں میں سہولیات کی عدم فراہمی کا رونا بھی روتی ہیں۔
آل پاکستان ہندو رائٹس موومنٹ کے چیئرمین ہارون سرب دیال سے جب ڈوئچے ویلے نے رابطہ کیا، تو انہوں نے کہا، ”جو بھی حکومت آتی ہے، شروع میں ہم ان سے بڑے پرامید ہوتے ہیں۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پتہ چل جاتا ہے کہ یہ کس طرف جا رہے ہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے یہ کارنامہ ضرور انجام دیا ہے کہ اقلیتوں کے لیے سرکاری ملازمتوں میں کوٹہ0.05 فیصد سے بڑھا کر تین فیصد کا اعلان تو کر دیا گیا ہے۔ لیکن ابھی تک اس بارے میں سرکاری اعلامیہ جاری نہ ہوسکا۔ سرب دیال نے کہا، ’’ان کا اس زمین اور یہاں کے لوگوں کے ساتھ ہزاروں سال کا رشتہ ہے۔ لیکن جو نظر انداز کرنے والی حکومتی پالیسیاں ہیں، وہ ہمارے راستے کی رکاوٹ ہیں۔ پارٹیوں کی کارکردگی کی طرح حکومتی لوگوں کے وعدے اور نعرے بھی محض میڈیا کے لیے ہوتے ہیں۔ عملی طور پر اس میں عام لوگوں کے لیے کچھ بھی نہیں ہے۔ اگر یہی حال رہا تو ہمارے مسائل کبھی بھی حل نہیں ہو سکیں گے۔‘‘
خیبر پختونخوا میں دو لاکھ سے زیادہ عیسائی آباد ہیں جس میں سے 70ہزار صرف دارالحکومت پشاور میں رہائش پذیر ہیں جبکہ سکھوں اور ہندوؤں کی آبادی ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ تاہم یہ شہری اپنے عبادت خانوں کی حفاظت سے مطمئن نہیں ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران دنیا میں جہاں کہیں بھی مسلمانوں یا اسلام کے خلاف کوئی واقعہ پیش آیا، اس کا ردعمل خیبر پختونخوا میں بھی دیکھنے میں آیا ہے۔
21 ستمبر 2012ء کو امریکا میں بنی ایک اسلام مخالف فلم کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں نے مردان کے سرحدی لودھراں چرچ پر حملہ کیا اور وہاں توڑ پھوڑ کی۔ اسی طرح 22 ستمبر 2013ء کو پشاور کے تاریخی آل سینٹس چرچ پر بھی خود کش حملہ کیا گیا، جس میں سو سے زائد افراد ہلاک جبکہ ڈیڑھ سو سے زائد زخمی ہوئے تھے۔ گزشتہ برس نومبر میں پشاور کے سواتی گیٹ چرچ پر حملے کے علاوہ شہر کے ایک مندر کی سکیورٹی پر مامور پولیس اہلکار کو بھی نامعلوم افراد نے گولی مار کر قتل کر دیا تھا۔