خیبر پختونخوا میں پہلا امریکی ڈرون حملہ، چھ ہلاک
21 نومبر 2013خبر رساں ادارے اے ایف پی نے پاکستانی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ خیبرپختونخوا میں ہونے والا یہ پہلا امریکی ڈرون حملہ ہے۔ یہ حملہ شمالی وزیرستان سے ملحق ہنگو ڈسٹرکٹ کے ٹل نامی علاقے میں کیا گیا۔ مقامی حکام نے اے ایف پی کو بتایا، ’’مدرسے پر کیے گئے اس حملے میں پانچ افراد ہلاک جبکہ ایک زخمی ہو گیا۔‘‘ مقامی میڈیا نے زخمیوں کی تعداد آٹھ بتائی ہے۔
مقامی پولیس اہلکار فرید خان نے نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے اس حملے کی تصدیق کردی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ جمعرات کی علی الصبح بغیر پائلٹ کے طیارے نے تین میزائل فائر کیے، جن کے نتیجے میں مدرسے کے دو استاد اور تین طالب علم مارے گئے۔ ابتدائی طور پر مقامی سکیورٹی حکام نے اس حملے میں ہلاک ہونے والوں کی شناخت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مفتی احمد جان اور مفتی حمیداللہ کا تعلق حقانی نیٹ ورک سے تھا۔
روئٹرز نے پاکستانی خفیہ اداروں کے اہلکاروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ طالبان سے وابستہ حقانی نیٹ ورک کا رہنما سراج الدین حقانی دو دن قبل اسی مدرسے میں دیکھا گیا تھا۔ اے ایف پی نے بتایا ہے کہ اس تازہ ڈرون حملے میں ہلاک ہونے والوں میں دو افراد کا تعلق افغانستان سے ہے جبکہ امریکی خبر رساں ادارے اے پی نے حکام کے حوالے دیتے ہوئے کہا ہے کہ تمام ہلاک شدگان کا تعلق افغانستان سے ہے۔
تحریک طالبان پاکستان کے مقتول رہنما حکیم اللہ محسود کی ایک ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد پاکستان میں یہ پہلا ڈرون حملہ ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ امریکی ڈرون حملے زیادہ تر قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں کیے جاتے ہیں اور خیبرپختونخوا کے گنجان آباد علاقوں میں ایسے حملہ پہلی مرتبہ کیا گیا ہے۔
یہ تازہ ڈرون حملہ ایسے وقت میں ہوا ہے، جب ایک روز قبل ہی پاکستانی خارجہ امور کے سربراہ سرتاج عزیز کا حوالہ دیتے ہوئے مقامی میڈیا نے کہا تھا کہ امریکا نے اسلام آباد کو یقین دہانی کرائی ہے کہ اسلام آباد حکومت کی طالبان کے ساتھ مذاکرات کی کوشش کے دوران مزید ڈرون حملے نہیں کیے جائیں گے۔ تاہم واشنگٹن حکومت نے سرتاج عزیز کے اس بیان پر کوئی تبصرہ نہیں کیا تھا۔
مبصرین کے بقول چونکہ قبل ازیں ڈرون حملے قبائلی علاقوں میں ہی ہوتے تھے اور قبائلی علاقوں سے باہر کیے جانے والا یہ اپنی نوعیت کا پہلا حملہ ہے، اس لیے اس سے اسلام آباد اور واشنگٹن کے مابین کشیدگی بڑھ سکتی ہے۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں کا سلسلہ 2004ء میں شروع ہوا تھا۔
یہ امر اہم ہے کہ اس تازہ ڈرون حملے سے قبل یکم نومبر کو ہونے والے حملے میں حکیم اللہ محسود کی ہلاکت پر پاکستانی حکومت نے شدید احتجاج کیا تھا۔ پاکستانی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے اسے پاکستانی طالبان کے ساتھ مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کے مترادف قرار دے دیا تھا۔ خیبر پخنونخوا میں برسر اقتدار عمران خان کی سیاسی پارٹی تحریک انصاف نے کہا تھا کہ اگر مزید ڈرون حملے ہوئے تو وہ نیٹو سپلائی بند کر دے گی۔