دہلی کے مسلم مخالف فسادات اور مسلمانوں کی گرفتاریاں
19 اپریل 2022بھارتی دارالحکومت دہلی کے مسلم آبادی والے علاقے جہانگیر پوری میں ہونے والے فرقہ وارانہ تصادم کے سلسلے میں اب تک دو درجن سے زائد افراد کو گرفتار کیا چکا ہے، جس میں سے بیشتر مسلمان ہیں۔ پولیس نے اس سلسلے میں اپنی جو تفتیشی رپورٹ وزارت داخلہ کو بھیجی ہے، اس میں فسادات کے پیچھے ایک ’مجرمانہ سازش‘ کا ذکر کیا گیا ہے۔
پولیس کی تفتیش اور کارروائی
پولیس کا کہنا ہے کہ اس نے اس معاملے کی تفتیش ہفتے کے روز ہی شروع کر دی تھی اور اب تک ملزمان کو پکڑنے کے لیے بیس مقامات پر چھاپے مارے جا چکے ہیں۔ تقریباﹰ 25 افراد کو حراست میں بھی لے لیا گیا ہے۔
جہانگیر پوری میں اب بھی سریع الحرکت دستے اور خصوصی پیرا ملٹری فورسز تعینات ہیں اور حکام کے مطابق حالات پوری طرح قابو میں ہیں۔
اسی دوران بھارتی میڈیا نے پولیس ذرائع کے حوالے سے لکھا ہے کہ پولیس کی نظر میں ان فسادات کے ’’ایک اہم ملزم، انصار نامی شخص کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔‘‘ یونس نامی ایک اور شہری بھی پولیس کی حراست میں ہیں، جنہیں آج منگل کے روز عدالت میں پیش کیا جا رہا تھا۔
پولیس کا کہنا ہے کہ بغیر اجازت جلوس نکالنے کے الزام میں بعض سخت گیر مقامی ہندو رہنماؤں کے خلاف بھی مقدمہ درج کیا گيا ہے۔ تاہم چند ہندو رہنماؤں کا کہنا ہے کہ اس جلوس کی اجازت پولیس نے خود دی تھی اور ان کے خلاف یہ الزام درست نہیں۔
’پاکستانی سازش‘
بھارت میں عام طور پر کوئی بھی معاملہ ہو، دیکھا یہ گیا ہے کہ جب تک اس پر ہونے والی بحث میں پڑوسی ملک پاکستان کا نام نہ آئے، تب تک وہ بحث تقریباﹰ نامکمل ہی سمجھی جاتی ہے۔ اب دہلی کے فسادات میں بھی مبینہ ’پاکستانی سازش‘ کا ذکر سننے میں آ چکا ہے اور بھارتی میڈیا پر اس بارے میں چٹخارے دار بحث جاری ہے۔
حکمران جماعت بی جے سے تعلق رکھنے والے دہلی کے ایک سخت گیر ہندو رہنما کشور گورجر نے سب سے پہلے یہ یہ بات کہی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ دہلی کے فسادات ’’ہندوؤں کے خلاف ایک سازش تھی، جس میں پاکستان کی آئی ایس آئی کی شمولیت کے ساتھ ساتھ کچھ بنیاد پرست ممالک بھی شامل ہیں۔‘‘
’مظلوم کو ظالم بنانے‘ کی کوشش
بھارت کے مختلف علاقوں میں ہندو مسلم تناؤ تیزی سے پھیل رہا ہے، جس پر کئی حلقوں نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ خاص طور پر دارالحکومت دہلی میں ان واقعات کا ہونا کافی تشویش ناک ہے، جہاں فروری 2020ء میں بھی فسادات کے دوران 50 سے زائد افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے تھے۔ اس میں سے بیشتر متاثرین مسلمان تھے اور پھر پولیس نے زیادہ تر واقعات میں انہی کے خلاف کارروائی بھی کی اور بہت سے ابھی تک جیلوں میں ہیں۔
جہانگیر پوری کیس میں بھی معاملہ کچھ ایسا ہی ہے۔ ہندو رہنماؤں کے خلاف کیس بغیر اجازت کے جلوس نکالنے کا ہے جبکہ مسلم برادری کے خلاف سخت قوانین کے تحت فساد بھڑکانے کے مقدمات درج کر کے گرفتاریاں کی جا رہی ہیں۔
معروف مسلم دانشور اور صحافی ظفرالاسلام خان کہتے ہیں کہ اس میں کچھ بھی نیا نہیں ہے۔ ’’پولیس تو یہی کرتی آئی ہے۔ 2020ء کے فسادات میں بھی جو مظلوم تھے، انہیں ظالم بنا کر پیش کیا گيا۔ بھارتی پولیس کوئی آزاد ایجنسی نہیں ہے، یہ وزیر داخلہ کی نکیل ہے اور ایک سیاسی فورس بن چکی ہے۔ وہ قانون اور انصاف کی نہیں بلکہ اپنے آقاؤں کی بات مانتی ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ’’انہیں حکم دیا گیا ہے کہ ظالم کو مظلوم اور مظلوم کو ظالم بنا کر پیش کرو۔ وہ یہی کر رہے ہیں۔‘‘ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ ایک طرح سے آئندہ انتخابات کی تیاری ہے، ’’حکومت ہر محاذ پر ناکام ہو چکی ہے اور اس کے پاس اب اس مذہبی منافرت کے علاوہ کچھ نہیں بچا۔ آہستہ آہستہ اس کا دائرہ اور بڑھے گا اور 2024 تک یہ لوگوں کو پوری طرح سے تیار کر لیں گے، پھر یہ جیت بھی جائیں گے۔ بی جے پی ایک سیاسی جماعت کے بجائے اب ایک الیکشن مشین بن چکی ہے۔‘‘
ظفرالاسلام خان کا کہنا ہے، ’’تمام حکومتی ایجنسیاں بھی اب سیاسی آمیزش کا شکار ہیں۔ پولیس سنتی نہیں ہے۔ عدالتیں بھی بڑی حد تک سیاسی ہو چکی ہیں۔ بھارتی میڈیا بھی حکومت کا ہم نوا ہے۔ مسلمان اس صورت میں کیا کر سکتے ہیں؟ ہمارے سامنے ابھی صبر کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔‘‘
ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’یہ وقت جلتی پر تیل ڈالنے کا نہیں۔ اگر ایسا کریں گے تو پولیس کو تو آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ کیا کر رہی ہے۔ ہر جگہ یہی ہو رہا ہے، مسلمان مار بھی کھاتے ہیں اور وہی جیل بھی جاتے ہیں۔ گھر بھی انہی کے توڑے جاتے ہیں۔‘‘
معاملہ ہے کیا؟
گزشتہ ہفتے کی شام عین افطاری سے قبل جہانگیر پوری میں ہندوؤں نے ایک مذہبی جلوس نکالا تھا اور پھر علاقے کی جامع مسجد کے دروازے پر مسلم مخالف نعرے بازی بھی ہوئی تھی۔ مقامی مسجد کی انتظامیہ کا الزام ہے کہ مشتعل ہندو ہجوم نے زبردستی مسجد میں داخل ہو کر اس پر ہندوؤں کا پرچم لہرایا اور گالیاں بھی دیں، جس کے بعد اطراف کے مابین تصادم شروع ہو گیا۔
شام چھ بجے سے افطاری کے بعد تک اس علاقے میں دونوں گروپ ایک دوسرے پر پھراؤ کرتے رہے تھے، جس میں چند پولیس اہلکاروں سمیت متعدد افراد زخمی بھی ہوئے۔ تاہم اس میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا تھا۔ بھارت کے مختلف علاقوں میں گزشتہ کچھ دنوں سے اس طرح کے ہندوؤں کے جلوس اور پھر مذہبی تناؤ اور تصادم عام سی بات بن چکے ہیں۔
اس طرح کے بیشتر واقعات ان ریاستوں میں ہوتے رہے ہیں، جہاں ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی اقتدار میں ہے۔ ایسے واقعات میں زیادہ تر نشانہ بھی مسلمان ہی بنتے ہیں اور پھر گرفتار بھی اسی برادری کے افراد کو کیا جاتا ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ ایسی حکومتوں نے اس طرح کے الزامات کے بعد بغیر کسی بھی عدالتی کارروائی کے فوری طور پر ملزمان کے مکانات مسمار کرنے کا چلن اپنا لیا ہے اور اب تک کئی مسلمانوں کے مکانات گرائے جا چکے ہیں۔