ذہنی ارتکاز میں بہتری کے طریقے
5 ستمبر 2022بارسلونا میں فنانس کی 21 سالہ طالبہ مینا کے مطابق، ''آپ چاہے مجھے ڈرامہ کوئین ہی کیوں نہ کہیں، مگر سچ یہ ہے کہ مجھے لگ رہا ہے کہ ارتکاز کی کمی کی وجہ سے دھیرے دھیرے میں اپنی زندگی کا کنٹرول کھو رہی ہوں۔‘‘ وہ پروگرامنگ کے شعبے میں آگے بڑھنا چاہتی ہیں تاکہ ایک اچھی تنخواہ والی نوکری تلاش کر پائیں، مگر باریک ارتکاز کی کمی کی وجہ سے انہیں پڑھائی میں سخت مشکل کا سامنا ہے۔
وہ جب بھی پڑھنے بیٹھتی ہیں کہ کوڈنگ کا کام ختم کر سکیں، تو وہ اور فون اٹھا کر کبھی انسٹاگرام میں گم ہو جاتی ہیں، کبھی کسی کو میسج کرنے لگتی ہیں اور کبھی کوئی گیم کھیلنے میں مگن ہو جاتی ہیں۔
''مسئلہ صرف میری تخلیقی صلاحیت اور سیکھنے کا نہیں، مجھے اپنی پسند کی کتاب اور ناول پڑھنے حتیٰ کہ مشغلے کے لیے بھی کسی حد تک ذہنی توانائی قائم رکھنے کے مسئلے کا سامنا ہوتا ہے۔‘‘
مینا نے اپنے نام کا دوسرا حصہ ظاہر نہیں کیا کیوں کہ انہیں خدشہ تھا کہ ممکن ہے کہ ان کا نام گوگل کرنے اور ان کے اس دماغی مسئلے سے آگہی پر ان کے لیے مستقبل میں ملازمت کی تلاش میں مسائل پیدا ہو جائیں۔
ڈپریشن کی وجہ سیروٹونین کی کمی نہیں، نئی تحقیق
سوشل میڈیا کے خوبصورتی کے معیار پر اثرات
مینا ان ہزاروں افراد میں سے ایک ہیں جو ذہنی ارتکاز کی کمی کے مسئلے سے دوچار ہیں اور اس بابت سوشل میڈیا پر پوسٹس کے ذریعے اپنے مسائل بتاتے رہتے ہیں۔ اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ دماغ کو دوبارہ فوکس کس طرح کیا جا سکتا ہے؟ جب کہ گوگل سرچ میں why cant I concentrate? یا میری توجہ کیوں مرکوز نہیں ہوتی، ایک معروف سوال ہے۔
ہماری توجہ کو ہوا کیا ہے؟
اب تک ایسی کوئی تفصیلی مطالعاتی تحقیق نہیں کی گئی، جس میں دو نسلوں کے بڑے نمونوں کو استعمال کر کے ارتکاز کے ہنر کا جائزہ لیا گیا ہو۔ بعض تحقیقی پرچوں میں تاہم کہا گیا ہے کہ دفتروں میں کام کرنے والے افراد اور طالب علموں میں ارتکاز کی کمی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ تاہم ان تحقیقی مکالوں کو دیگر مطالعوں میں چیلنج بھی کیا گیا ہے اور دلیل دی گئی ہے کہ توجہ کا انحصار کام اور ورک فلو پر بھی ہوتا ہے جب کہ کسی کمرہ جماعت کا ماحول بھی بہت حد تک توجہ اور ارتکاز کو طے کرتا ہے۔ دوسری جانب کئی افراد ارتکاز کے وقت میں کمی اور کمپیوٹر اور موبائل اسکرینز دیکھنے کے وقت میں اضافے کو غلط بھی نہیں سمجھتے۔
توجہ کی بحالی اجتماعی کاوش سے
نیویارک ٹائمز سے وابستہ مصنف جوہان ہیری کے مطابق، ''اگر آپ نے اسے انفرادی مسئلہ سمجھا، تو آپ پھنس جائیں گے۔ ہمیں ایک دوسرے پر الزام عائد کرنے کی بجائے اجتماعی طور پر ایسی قوتوں کو سنجیدہ سمجھ کر ان کا تدارک کرنا ہو گا، جو ہماری توجہ کم زور بنا رہی ہیں۔‘‘
ہیری کے مطابق اجتماعی کاوشوں کے بغیر اس مسئلے سے نجات آسان نہیں ہو گی۔
ہیری کے مطابق گھنٹوں کمپیوٹر یا موبائل فونز کی اسکرینز دیکھنے والوں کو اپنے آپ کو دھیرے دھیرے تربیت دینا ہو گی تاکہ توجہ کی کمی کا مسئلہ حل ہو پائے۔ تاہم ایسی ملازمتیں جن میں گھنٹوں کمپیوٹر اسکرینز کو دیکھنا نوکری کا حصہ ہے، وہاں نئے لیبر قوانین درکار ہیں۔
فرانس میں حال ہی میں ایسے ملازمین کی مدد کے لیے ایک قانون 'ڈسکنکٹ کا حق‘ متعارف کرایا گیا ہے۔ یہ قانون یورپی پارلیمان نے بھی منظور کیا ہے اور کہا جا رہا ہےکہ اس سے کروڑوں یورپی باشندوں کو اپنی توجہ دوبارہ حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔
ع ت / م م (منیر غائدی)