رمضان المبارک شامی حکومت کے لیے خطرہ
1 اگست 2011گزشتہ روز شام میں حکومت مخالف تحریک کا گڑھ سمجھے جانے والے مختلف شہروں میں سرکاری دستوں کی کارروائیوں کا مقصد غالباً احتجاج کرنے والوں کو دھمکی دینا تھا کہ وہ آج پیر سے شروع ہونے والے رمضان المبارک کے مہینے میں مظاہروں اور احتجاجی مہم سے باز رہیں۔ اُدھر حکومت مخالفین کی کوشش ہے کہ رمضان کے دوران مساجد آنے والے زیادہ سے زیادہ نمازیوں کو اس عوامی تحریک میں شامل ہونے کے لیے تیار کیا جائے۔
گزشتہ جمعے کو شام کے طول وعرض میں ایک ہی نعرہ گونج رہا تھا۔ مظاہرین صدر بشار الاسد سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ وہ رمضان کے ماہ کو آزادی کے ساتھ خوشگوار ماحول میں منانا چاہتے ہیں۔ اُدھر بشار الاسد اپنے موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں اور اس کا از سر نو اظہار انہوں نے دمشق اور حلب کے درمیان واقع کوہستانی شہر حماہ میں مظاہرین کے خلاف خونی کارروائیوں کے ذریعے گزشتہ روزکیا۔ یہ سلسلہ شامی حکومت نے کئی ماہ سے جاری رکھا ہوا ہے اور جہاں جہاں اُسے موقع مل رہا ہے، وہ مظاہرین کے خلاف آپریشن کر رہی ہے۔ احتجاج کرنے والے حکومت کے مخالفین اور دمشق حکومت کے مابین تصادم میں اب تک 1800 جانیں ضائع ہو چُکی ہیں۔ حکومت مخالفین نے رمضان المبارک کے ماہ سے بڑی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں۔ ان کے ایک لیڈر کا کہنا ہے،’رمضان کا مہینہ شامی انقلاب کے لیے بہت بڑا موقع ہے۔ اس ماہ میں لوگ جذباتی ہو رہے ہوتے ہیں۔ ہم ہر روز مساجد میں جاتے ہیں، یہ ہمارے لیے واحد جگہ ہے بے خطر، بڑی تعداد میں اکٹھا مل بیٹھنے کا موقع، وہ بھی ہر روز۔ ہمیں یقین ہے کہ ہماری انقلابی مہم کی قوت میں اضافہ ہوگا‘۔
شامی حکومت کو مکمل اندازہ ہے کہ رمضان کا مہینہ اُس کے لیے نہایت خطرناک ہے۔ صدر بشارا لاسد محسوس کر رہے ہیں کہ روزے کی حالت میں بڑی تعداد میں مساجد میں آنے والے افراد حکومت مخالف مہم کا حصہ بن کر کیا کچھ کر سکتے ہیں۔ خون میں نکوٹین اور شوگر کی مقدار میں کمی کے باعث مسجد آنے والے روزہ داروں پر بہت سی چیزوں کے اثرات بہت سخت مرتب ہو سکتے ہیں۔ اسی لیے صدر اسد ان حالات سے بچنے کی تمام تر کوششیں کر رہے ہیں۔
حکومت مخالف ایک سرگرم کارکن کہہ رہا ہے،’ہم نے سنا ہے کہ حکومت مساجد یہ کہہ کر بند کروانے کی کوشش کر رہی ہے کہ ان کی عمارتوں میں مرمت کا کام ہوگا۔ اصل وجہ یہ ہے کہ اسے خوف ہے کہ زیادہ سے زیادہ افراد مساجد سے نکل کر احتجاج میں حصہ لیں گے‘۔
شامی صدر کے لیے موجودہ حالات میں دارالحکومت دمشق کی حفاظت بہت مشکل ہو گی۔ یہی اُن کی طاقت کا مرکز ہے۔ یہاں اب تک تو نسبتاً سکون رہا ہے تاہم اگر احتجاجی مظاہروں کا رُخ دمشق کی طرف ہوا تو حالات حکومت کے قابو سے باہر ہو سکتے ہیں۔ تبصرہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کی بھرپور کوشش ہے کہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے شامی باشندوں کو زیادہ سے زیادہ احتجاجی مظاہروں میں شامل ہونے کی ترغیب دی جائے۔
رپورٹ: کشور مصطفیٰ
ادارت: مقبول ملک